-=== حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ ===-
--------نام ، نسب--------
مصعب نام ، ابو محمد کنیت ، والد کا نام عمیر اور والدہ کا نام حناس بنت مالک تھا ۔ سلسلہ نسب یہ ہے : مصعب بن عمیر بن ہاشم بن عبد مناف بن عبد الدار بن قصی القرشی ۔
----------ابتدائی حالات----------
حضرت مصعب رضی اللہ عنہ مکہ کے ایک نہایت حسین و خوش رو نوجوان تھے ۔ ان کے والدین ان سے شدید محبت رکھتے تھے ۔ خصوصاً انکی والدہ حناس بنت مالک نے مالدار ہونے کی وجہ سے نہایت ناز و نم سے پالا تھا ۔ چنانچہ وہ عمدہ سے عمدہ پوشاک اور نہایت مہنگی خوشبو جو اس زمانہ میں میسر آسکتی تھی ، استعمال فرماتے تھے ۔ نبی پاک ﷺ کبھی ان کا تذکرہ کرتے تو فرماتے : مکہ میں مصعب رضی اللہ عنہ سے زیادہ کوئی حسین ، خوش پوشاک اور ناز و نم سے پلا کوئی نہیں ہے ۔
----حُلیہ----
قد میانہ ،چہرہ حسین نرم و نازک اور زلفیں نہایت خوبصورت تھیں ۔
-------اہل و عیال-------
حضرت مصعب رضی الله عنه کی بیوی کا نام حمنہ بنت جحش تھا ، جس سے زینب نامی ایک لڑکی یاد گار چھوڑی ۔
-----اسلام-----
اللہ پاک نے نے جیسے ظاہری طور پہ خوبصورت بنایا ، دل بھی نہایت شفاف بنایا ۔ مکہ میں جیسے ہی توحید کی صدا بلند ہوئی ، مصعب رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کرلیا ۔ مکہ میں چونکہ مسلمانوں کیلئے زمین تنگ تھی تو ایک عرصہ تک اپنے اسلام کو پوشیدہ رکھا ۔ ایک دن طلحہ بن عثمان رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لیا تو آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ کو جاکر بتادیا ۔ یکایک محبت نفرت میں تبدیل ہوگئی ، آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ نے آپکو قید میں ڈال دیا ۔
---------ہجرت حبشہ---------
حضرت مصعب رضی اللہ عنہ ایک عرصہ تک قید کے مصائب برداشت کرتے رہے ، لیکن قید کی تلخ زندگی نے بالآخر وطن چھوڑنے پر مجبور کردیا اور حبشہ کیجانب ہجرت فرمائی ۔ ایک مدت کے بعد حبشہ سے مکہ واپس آئے تو مصائب سے رنگ و روپ باقی نہ رہا تھا ۔ ماں نے جب یہ حالت دیکھی تو اپنے بیٹے پر ظلم و ستم سے باز رہی ۔
-------------------تعلیمِ دین و اشاعتِ اسلام-------------------
توحید کی کرنیں مکہ سے مدینہ منورہ تک پہنچ گئیں اور مدینہ منورہ کے ایک معزز طبقہ نے اسلام قبول کرلیا تھا ۔ انہوں نے دربارِ نبوت میں درخواست بھیجی کہ ہماری تعلیم و تلقین پر کسی کو مامور فرمایا جائے ۔ نبی پاک ﷺ نے اس خدمت کیلئے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو منتخب کیا اور چند نصیحتیں کرنے کے بعد مدینہ منورہ کی طرف روانہ فرمایا ۔
حضرت مصعب رضی اللہ عنہ مدینہ پہنچ کر حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے مکان پر رہائش پذیر ہوئے اور اسلام کی دعوت دینے لگے ۔ ایک دفعہ چند مسلمانوں کو تعلیم دے رہے تھے کہ قبیلہ عبدالاشہل کے سردار سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے اپنے دوست اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ سے کہا : اس داعیِ اسلام کو اپنے محلہ سے نکال دو جو یہاں آکر ہمارے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے ۔ اگر اسعد سے میری رشتہ داری نہ ہوتی تو میں تم کو اس کی تکلیف نہ دیتا ۔ یہ سن کر اسید رضی اللہ عنہ نے نیزہ اُٹھایا اورحضرت مصعب و اسعد رضی اللہ عنہما کے پاس آکر غصہ میں کہا : تمہیں یہاں کس نے بلایا ہے کہ یہاں کے لوگوں کو گمراہ کرو ؟ اگر تم کو اپنی جانیں عزیز ہیں تو بہتر یہ ہے کہ ابھی یہاں سے چلے جاؤ . حضرت مصعب رضی اللہ عنہ نے نرمی سے جواب دیا : بیٹھ کر ہماری باتیں سنو ، اگر پسند آئے قبول کرو ورنہ ہم خود چلےجائیں گے . حضرت اسید رضی اللہ عنہ نیزہ گاڑ کر بیٹھ گئے اور غور سے سننے لگے . حضرت مصعب رضی اللہ عنہ نے چند آیات کریمہ تلاوت کرکے جب اسلام کی خوبیاں بیان کی تو حضرت اسید رضی اللہ عنہ کا دل نورِ ایمان سے چمک اُٹھا اور بولے : کیسا اچھا مذہب ہے، کیسی بہتر ہدایت ہے ۔ اس مذہب میں داخل ہونے کا کیا طریقہ ہے ؟حضرت مصعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : پہلے نہا کر پاک کپڑے پہنو ، پھر صدق دل سے اللہ پاک کی وحدانیت کا اقرار اور نبی پاک ﷺ کی نبوت کا اقرار کرو ۔ انہوں نے ہدایت کی تعمیل کی اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے اور کہا : میرے بعد ایک اورشخص ہے جس کو ایمان پر لانا ہوگا ، اگر وہ اس دائرہ میں داخل ہوگیا تو تمام قبیلہ عبدالاشہل اس کی پیروی کرے گا ۔ میں ابھی اس کو آپ کے پاس بھیجتا ہوں۔حضرت اسید رضی اللہ عنہ جب واپس پہنچے تو سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے حضرت اسید رضی اللہ عنہ کے چہرے پہ ایمان کی چمک دیکھی تو دور سے ہی دیکھ کر فرمایا : اللہ کی قسم ! یہ وہ نہیں رہا جو گیا تھا ۔ جب قریب آئے تو پوچھا : کہو کیا کر آئے ؟ بولے : اللہ کی قسم وہ دونوں ذرا بھی خوفزدہ نہ ہوئے ۔ اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ بنی حارثہ اس وجہ سے اسعد بن زراہ رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے نکلے ہیں کہ وہ تمہارا خالہ زاد بھائی ہے ، تاکہ اسطرح تمہاری تذلیل ہو ۔ چونکہ بنی حارثہ اورعبدالاشہل میں دیرینہ عداوت تھی ، اسلئے حضرت اسید رضی اللہ عنہ کا غصہ بہت بڑھ گیا اور وہ بنی حارثہ کا مقابلہ کرنے کیلئے وہاں سے چل دیئے ۔ تھوڑی دیر کے بعد اسید رضی اللہ عنہ حالات کو دیکھنے کیلئے وہاں پہنچے تو دیکھا کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ بیٹھے اسلام کی باتیں سن رہے ہیں اور تھوڑی دیر کے بعد اسلام قبول کرلیا اور وہاں سے اپنے قبیلہ والوں کے پاس آئے اور بلند آواز میں پوچھا : اے بنی اشہل ! بتاؤ میں تمہارا کون ہوں ؟ انہوں نے کہا : تم ہمارے سردار اور ہم سب سے زیادہ عاقل اورعالی نسب ہو ۔ بولے : اللہ کی قسم ! تمہارے مردوں اور تمہاری عورتوں سے گفتگو کرنا مجھ پر حرام ہے جب تک تم اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان نہ لاؤ ۔اس طرح بنی اشہل کا تمام قبیلہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے اثر سے اسلام میں داخل ہوگیا ۔
-------------------مدینہ میں جمعہ قائم کرنا-------------------
مدینہ منورہ میں جب مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی تو حضرت مصعب رضی اللہ عنہ نے دربارِ نبوت سے اجازت حاصل کرکے حضرت سعد بن خثیمہ رضی اللہ عنہ کے مکان میں نماز جمعہ پڑھائی ۔ پہلے کھڑے ہوکر ایک نہایت مؤثر خطبہ دیا ، پھر خشوع و خضوع کیساتھ نماز پڑھائی اور بعد نماز حاضرین کی ضیافت کیلئے ایک بکری ذبح کی گئی ۔ اسطرح یہ ہفتہ وار اجتماع خاص حجرت مصعب رضی اللہ عنہ کی تحریک سے شروع ہوا ۔
-----------بیعت عقبہ ثانیہ-----------
بیعت عقبہ اول میں صرف بارہ انصار شریک تھے ۔ لیکن حضرت مصعب رضی اللہ عنہ کی دعوت و حسن اخلاق کیوجہ سے ایک ہی سال میں لوگ اسلام کے گرویدہ ہوگئے ۔ چنانچہ دوسرے سال تہتر ۷۳ لوگ اپنی قوم کیطرف سے تجدید بیعت اور رسول اللہ ﷺ کو مدینہ میں مدعو کرنے کیلئے مکہ روانہ ہوئی ۔ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ بھی ساتھ تھے ۔ انہوں نے مکہ پہنچتے ہی سب سے پہلے نبی پاک ﷺ کی خدمت میں حاضری دی اور لوگوں کی اسلام سے بڑھتی ہوئی محبت کی مفصل داستان سنائی ۔ نبی پاک ﷺ یہ سب تفصیلات سن کر بہت خوش ہوئے ۔حضرت مصعب رضی اللہ عنہ کی ماں کو جب بیٹے کی آمد کا پتہ چلا تو کہلا بھیجا : اے نافرمان بیٹے ! کیا ایسا دن بھی دیکھنا تھا کہ تیری ماں زندہ ہو اور تُو مجھ سے ملنے پہلے نہ آئے ۔ انہوں نے جواب دیا : میں نبی پاک ﷺ سے پہلے کسی سے نہیں ملوں گا ۔ نبی پاک ﷺ سے ملاقات کے بعد اپنی ماں کے پاس گئے تو اس نے کہا : مجھے اب یقین ہوگیا ہے کہ تُو اب اپنے مذہب پہ واپس نہیں آئے گا تو وہ بولے : میں اس دین کا ماننے والا ہوں جس کو اللہ پاک نے اپنے اور اپنے رسول ﷺ کیلئے پسند فرمایا ہے ۔ ماں نے جب بیٹے کے خیالات سنے تو کہنے لگی کہ بس اب تُو یہاں سے چلا جا اور رونے لگی ۔ حضرت مصعب رضی اللہ عنہ اس کیفیت سے متاثر ہوئے اور کہنے لگے : اے ماں ! میں تجھے خیر خواہی و محبت سے مشورہ دیتا ہوں کہ تُو گواہی دے کہ اللہ ایک ہے اور محمد ﷺ اسکے بندہ اور رسول برحق ہیں ۔ اس نے کہا : چمکتے ہوئے تاروں کی قسم ! میں اس مذہب میں داخل ہوکر اپنے آپکو احمق نہ بناؤں گی ۔ جا میں تُجھ سے اور تیری باتوں سے ہاتھ دھوتی ہوں اور اپنے مذہب سے وابستہ رہوںگی ۔
---------ہجرت مدینہ---------
حضرت مصعب رضی اللہ عنہ نے مکہ آنے کے بعد ذی الحجہ ، محرم اورصفر کے مہینے آنحضرت ﷺ ہی کی خدمت میں بسر کئے اور یکم ربیع الاول کو سرورِ کائنات ﷺ سے بارہ دن پہلے مستقل طور پر ہجرت کرکے مدینہ کی راہ لی ۔
-----غزوات-----
غزوۂ بدر میں جماعتِ مہاجرین کا سب سے بڑا علم حضرت مصعب رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا ۔ غزوۂ اُحد میں بھی علمبرداری کا شرف ان ہی کو ملا ۔
------شہادت------
اُحد میں ایک اتفاقی غلطی نے جب فتح کو شکست میں بدل دیا تو اس وقت بھی یہ علمبردار اسلام بالکل تنہا مشرکین کے نرغہ میں ثابت قدم رہا ۔ مشرکین کے شہسوار ابن قمیہ نے بڑھ کر تلوار کا وار کیا جس سے داہنا ہاتھ شہید ہوگیا ، لیکن بائیں ہاتھ سے فوراً علم کو پکڑلیا ۔ اس وقت ان کی زبان پر یہ آیت جاری تھی :
اور محمد صرف رسول ہیں ، ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں ۔ ( آل عمران : ۱۴۴ )
ابن قمیہ نے دوسرا وار کیا اور بایاں ہاتھ بھی شہید ہوگیا لیکن اس دفعہ دونوں بازوؤں سے حلقہ بنا کر علم کو سینہ سے چمٹالیا ۔ اس نے جھنجھلا کر تلوار پھینک دی اور زور سے نیزہ تاک کر مارا کہ اسکی انی ٹوٹ کر سینہ میں رہ گئی اور اسلام کا سچا فدائی اسی آیت کا اعادہ کرتے ہوئے شہادت کے منصب پر فائز ہوگیا ۔ لیکن اسلامی پھریرا سرنگوں ہونے کے لیے نہیں آیا تھا، ان کے بھائی ابوالروم بن عمیر رضی اللہ عنہ نے بڑھ کر علم کو تھام لیا اور آخر وقت تک شجاعانہ مدافعت کرتے رہے ۔
-----------تجہیز و تکفین-----------
لڑائی کے خاتمہ پر آنحضرت ﷺ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی لاش کے قریب کھڑے ہوئے اور یہ آیت تلاوت فرمائی :مومنین میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اللہ پاک سے جو کچھ وعدہ کیا تھا ، اس کو سچا کر دکھایا ۔ ( الاحزاب : ۲۳ )
پھر لاش سے مخاطب ہوکر فرمایا : میں نے تم کو مکہ میں دیکھا تھا جہاں تمہارے جیسا حسین و خوش پوشاک کوئی نہ تھا ۔ لیکن آج دیکھتا ہوں کہ تمہارے بال اُلجھے ہوئے ہیں اور جسم پر صرف ایک چادر ہے ۔ پھر ارشاد فرمایا : بیشک اللہ کا رسول گواہی دیتا ہے کہ تم لوگ قیامت کے دن اللہ پاک کے دربار میں حاضر ہوگے ۔ اس کے بعد لوگوں کو حکم ہوا کہ شہداء کی آخری زیارت کرکے سلام بھیجیں ۔اس زمانہ میں غربت و افلاس کے باعث شہیدانِ ملت کو کفن تک نصیب نہ ہوا ۔ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی لاش پر صرف ایک چادر تھی کہ جس سے سر چھپایا جاتا تو پاؤں برہنہ ہوجاتے اور پاؤں چھپائے جاتے تو سر کُھل جاتا ۔ بالآخر چادر سے چہرہ چھپایا گیا ۔ پاؤں پر اذخر کی گھاس ڈالی گئی اور ان کے بھائی حضرت ابوالروم بن عمیر رضی اللہ عنہ نے حضرت عامر بن ربیعہ اور حضرت سویط بن سعد رضی اللہ عنہما کی مدد سے سپردِ خاک کیا ۔
--------فضل وکمال--------
حضرت مصعب رضی اللہ عنہ نہایت ذہین اور خوش بیان تھے ۔ یثرب ( مدینہ کا پہلا نام ) میں جس تیزی سے اسلام پھیلا ، اس سے ان کے ان اوصاف کا اندازہ ہوسکتا ہے ۔ قرآن پاک جس قدر نازل ہوچکا تھا ، اس کے حافظ بھی تھے ۔ مدینہ میں نماز جمعہ کی ابتداء ان ہی کی تحریک سے ہوئی اور یہی سب سے پہلے امام مقرر ہوئے ۔
-----------اخلاق و عادات-----------
اخلاقی پایہ نہایت بلند تھا ۔ حبشہ کی صحرا نوردیوں نے جفا کشی ، استقلال و استقامت کے نہایت زریں اسباق دیئے تھے اور اچھی طرح سکھا دیا تھا کہ دشمنوں میں رہ کر کس طرح اپنا مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ رسول خدا ﷺ نے نومسلموں کی تعلیم و تربیت اوراشاعتِ اسلام جیسے اہم خدمات پر ان کو مامور فرمایا تھا ۔مزاج قدرۃ نہایت لطافت پسند تھا ۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے عمدہ سے عمدہ پوشاک اور انہتہائی قیمتی خوشبو استعمال فرماتے ، حضرمی جوتا جو اس زمانہ میں صرف امراء کیلئے مخصوص تھا ، وہ ان کے روز مرہ کے کام میں آتا ۔ غرض انکے وقت کا اکثر حصہ آرائش و زیبائش میں گزرتا تھا لیکن جب اسلام قبول کیا تو تمام تکلفات بھول گئے ۔ ایک روز دربارِ نبوت میں اس شان سے حاضر ہوئے کہ جسم ڈھانبپنے کیلئے صرف ایک کھال کا ٹکڑا تھا جس میں جگہ جگہ پیوند لگے ہوئے تھے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دیکھا تو سب نے گردنیں جھکالیں ۔ آنحضرت ﷺ نےفرمایا ؛ الحمد للہ ، اب دنیا اور تمام اہل دنیا کی حالت بدل جانی چاہئے ۔ یہ وہ نوجوان ہے جس سے زیادہ مکہ میں کوئی ناز پروردہ نہ تھا لیکن نیکو کاری کی رغبت اور اللہ اور رسول ﷺ کی محبت نے اس کو تمام چیزوں سے بے نیاز کردیا ۔
No comments:
Post a Comment