Thursday, July 24, 2014

استغفار کی فضیلت


استغفار کی فضیلت:
القرآن : وَما كانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُم وَأَنتَ فيهِم ۚ وَما كانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُم وَهُم يَستَغفِرونَ {8:33}
ترجمہ : اور الله ایسا نہ تھا کہ جب تک تم ان میں سے تھے انہیں عذاب دیتا۔ اور ایسا نہ تھا کہ وہ بخششیں مانگیں اور انہیں عذاب دے.
مشرکین پر عذاب کیوں نہیں آیا ؟
سنت اللہ یہ ہے کہ جب کسی قوم پر تکذیب انبیاء کی وجہ سے عذاب نازل کرتے ہیں تو اپنے پیغمبر کو ان سے علیحدہ کر لیتے ہیں۔ خدا نے جب حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو مکہ سے علیحدہ کر لیا تب مکہ والے بدر کے عذاب میں پکڑے گئے۔
نزول عذاب سے دو چیزیں مانع ہیں ایک ان کے درمیان پیغمبر کا موجود رہنا۔ دوسرے استغفار۔ یعنی مکہ میں حضرت کے قدم سےعذاب اٹک رہا تھا۔ اب ان پر عذاب آیا۔ اسی طرح جب تک گنہگار نادم رہے اور توبہ کرتا رہے تو پکڑا نہیں جاتا اگرچہ بڑے سے بڑا گناہ ہو۔ حضرت نے فرمایا کہ گنہگاروں کی پناہ دو چیزیں ہیں۔ ایک میرا وجود اور دوسرے استغفار کذا فی الموضح۔ (تنبیہ) { وَمَا کَانَ اللہُ لَیُعَذِّبَھُمْ } کے جو معنی مترجم محقق قدس اللہ روحہٗ نے کئے بعض مفسرین کے موافق ہیں لیکن اکثر کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ مشرکین جس قسم کا خارق عادت عذاب طلب کر رہے تھے۔ جو قوم کا دفعۃً استیصال کر دے۔ ان پر ایسا عذاب بھیجنے سے دو چیزیں مانع ہیں ایک حضور ﷺ کا وجود باوجود کہ اس کی برکت سے اس امت پر خواہ "امۃ دعوۃ" ہی کیوں نہ ہو ایسا خارق عادت مستاصل عذاب نہیں آتا۔ یوں کسی وقت افراد دوآحاد پر آ جائے وہ اس کے منافی نہیں۔ دوسرے استغفار کرنے والوں کی موجودگی خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم جیسا کہ منقول ہے کہ مشرکین مکہ بھی تلبیہ و طواف وغیرہ میں "غفرانک ، غفرانک" کہا کرتے تھے۔ باقی غیر خارق معمولی عذاب (مثلاً قحط یا وبا یا قتل کثیر وغیرہ) اس کا نزول پیغمبر یا بعض مستغفرین کی موجودگی میں بھی ممکن ہے آخر جب وہ لوگ شرارتیں کریں گے تو خدا کی طرف سے تنبیہ کیوں نہ کی جائے گی۔ آگے اسی کو بیان فرمایا ہے۔
الحدیث : نازل کی ہیں الله نے دو امان میری امّت کے لئے : "جب تک (اے نبی) آپ ان میں موجود ہیں الله ان کو عذاب میں مبتلا نہ کرے گا اور جب تک وہ اپنے گناہوں پر استغفار کرتے رہیں گے تب بھی الله انھیں عذاب میں مبتلا نہ کرے گا".(سورة الأنفال آية 33) سو جب میں گزر جاؤں گا تو قیامت تک کے لئے عذاب الہی سے امن کے واسطے تمہارے اندر استغفار (بخشش مانگنے کا طریقہ و تعلیم) چھوڑ جاؤں گا.[جامع الترمذي » كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ » بَاب وَمِنْ سُورَةِ النِّسَاءِ ... رقم الحديث: 3026]
القرآن : وَيٰقَومِ استَغفِروا رَبَّكُم ثُمَّ توبوا إِلَيهِ يُرسِلِ السَّماءَ عَلَيكُم مِدرارًا وَيَزِدكُم قُوَّةً إِلىٰ قُوَّتِكُم وَلا تَتَوَلَّوا مُجرِمينَ {11:52}
ترجمہ : اور اے قوم! اپنے پروردگار سے بخشش مانگو پھر اس کے آگے توبہ کرو۔ وہ تم پر آسمان سے موسلادھار مینہ برسائے گا اور تمہاری طاقت پر طاقت بڑھائے گا اور (دیکھو) گنہگار بن کر روگردانی نہ کرو.
تشریح : یعنی موقع بہ موقع خوب بارشیں دے گا۔ وہ قوم چونکہ کھیتی ، باغ لگانے سے بڑی دلچسپی رکھتی تھی اس لئے ایمان لانے کے ظاہری فوائد و برکات وہ بیان کئے جو ان کے حق میں خصوصی طور پر موجب ترغیب ہوں۔ لکھتے ہیں کہ وہ لوگ تین سال سے خشک سالی اور امساک باراں کی مصیبت میں گرفتار تھے۔ ہودؑ نے وعدہ کیا کہ ایمان لا کر خدا کی طرف رجوع ہو گے تو یہ مصیبت دور ہو جائے گی۔
یعنی مالی اور بدنی قوت بڑھائے گا اولاد میں برکت دے گا۔ خوشحالی میں ترقی ہو گی ، اور مادی قوت کے ساتھ روحانی و ایمانی قوت کا اضافہ کر دیا جائے گا۔ بشرطیکہ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع ہو کر اس کی اطاعت سے مجرموں کی طرح روگردانی نہ کرو۔
الحدیث : جس نے استغفار کی کثرت کی (اور دوسری روایت میں ہے : جن نے لازم (پابند) کیا بخشش مانگتے رہنا) ، الله تعالیٰ اس کے لئے ہر مشکل آسان فرمادیں گے اور ہر تنگی سے نجات کا راستہ فراہم فرمائیں گے اور اس کو ایسی ایسی جگہ سے روزی پہنچے گی جہاں اس کا وہم و گمان تک نہ جاۓ گا.[السنن الكبرى للنسائي » كِتَابُ الزِّينَةِ » الإِكْثَارُ مِنَ الاسْتِغْفَارِ ... رقم الحديث: 9853]
القرآن : فَقُلتُ استَغفِروا رَبَّكُم إِنَّهُ كانَ غَفّارًا {71:10} يُرسِلِ السَّماءَ عَلَيكُم مِدرارًا {71:11} وَيُمدِدكُم بِأَموٰلٍ وَبَنينَ وَيَجعَل لَكُم جَنّٰتٍ وَيَجعَل لَكُم أَنهٰرًا {71:12}
ترجمہ : اور کہا کہ اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے. وہ تم پر آسمان سے لگاتار مینہ برسائے گا. اور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہیں باغ عطا کرے گا اور ان میں تمہارے لئے نہریں بہا دے گا.
اللہ سے اپنے گناہ بخشواؤ:
یعنی باوجود سینکڑوں برس سمجھانےکے اب بھی اگر میری بات مان کر اپنے مالک کی طرف جھکو گے اور اس سے اپنی خطائیں معاف کراؤ گے تو وہ بڑا بخشنے والا ہے، پچھلے سب قصور یک قلم معاف کر دیگا۔
اللہ کی نعمتیں برسیں گی:
یعنی ایمان و استغفار کی برکت سے قحط و خشک سالی (جس میں وہ برسوں سے مبتلا تھے) دور ہو جائیگی اور اللہ تعالیٰ دھواں دھار برسنے والا بادل بھیج دیگا جس سے کھیت اور باغ خوب سیراب ہونگے۔ غلّے، پھل، میوہ کی افراط ہو گی، مواشی وغیرہ فربہ ہو جائیں گے، دودھ گھی بڑھ جائے گا اور عورتیں جو کفر و معصیت کی شامت سے بانجھ ہو رہی ہیں اولاد ذکور جننے لگیں گی۔ غرض آخرت کے ساتھ دنیا کے عیش و بہار سے بھی وافر حصہ دیا جائے گا۔ (تنبیہ) استسقاء کی اصل رُوح: امام ابوحنیفہؒ نے اس آیت سے یہ نکالاہے کہ استسقاء کی اصل حقیقت اور روح استغفار وانابت ہے اور نماز اس کی کامل ترین صورت ہے،جو سنت صحیحہ سے ثابت ہوئی۔
الحدیث : حضرت ابو حنیفہ رح حضرت جابر (رضی الله عنہ) سے مروی ہے کہ ایک انصاری آدمی نبی (صلی الله علیہ وسلم) کی خدمات میں آکر کہنے لگا کہ اے الله کے رسول! میرے یہاں ابھی تک کوئی اولاد نہیں ہوئی، نبی (صلی الله علیہ وسلم) نے فرمایا : (تو) تم کثرت_استغفار اور صدقہ (و خیرات کرنے) سے کہاں غفلت میں رہے ؟ اس کی برکت سے تمہیں اولاد نصیب ہوگی . اس آدمی نے کثرت سے صدقہ دینا اور استغفار کرنا شروع کردیا. حضرت جابر (رضی الله عنہ) کہتے ہیں کہ اس کی برکت سے اس کے ہاں نو (٩) "لڑکے" بدا ہوۓ.
[مسند امام اعظم : حدیث # ٤٤٦]
ظالم ابھی ہے فرصت_توبہ نہ دیر کر ،
وہ بھی گرا نہیں، جو گرا پھر سنبھل گیا.
ہم نے طے کیں اس طرح منزلیں،
گر پڑے، گر کر اٹھے، اٹھ کے چلے.
توبہ ایک طرح سے باطنی وضو ہے ، جو دل کو گناہوں کی سیاہی سے طہارت کا تقویٰ حاصل کرنے کا پہلا اور بنیادی عمل ہے. توبہ سے تقویٰ کا حصول ایسے ہی ہے جیسے بے وضو ہونے پر وضو کرکے طہارت (تقویٰ) میں رہنا. تو کون ہے جو گناہوں سے طہارت (تقویٰ) کے ٹوٹنے پر فوراً توبہ کا وضو کرکے طہارت (تقویٰ) حاصل کرکے الله کا محبوب بنے؟؟؟
القرآن : ... اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ وَ یُحِبُّ الۡمُتَطَہِّرِیۡنَ [البقرہ : ۲۲۲]
ترجمہ : ... بیشک اللہ کو پسند آتے ہیں توبہ کرنے والے اور پسند آتے ہیں گندگی سے بچنے والے.
صبح کا بھولا شام کو لوٹ آۓ تو ...
الحدیث : التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ. [سنن ابن ماجه » كِتَاب الزُّهْدِ » بَاب ذِكْرِ التَّوْبَةِ ... رقم الحديث: 4248]
ترجمہ : گناہوں سے توبہ کرنے والا گناہ نہ کرنے والے کی طرح ہے.
توبہ و استغفار میں فرق:
توبہ باطنی عمل کو کہتے ہیں جبکہ استغفار ظاہری اقرار کو کہتے ہیں؛
الحدیث : النَّدَمُ تَوْبَةٌ [سنن ابن ماجه » كِتَاب الزُّهْدِ » بَاب ذِكْرِ التَّوْبَةِ ... رقم الحديث: 4250]
ترجمہ : ندامت توبہ ہے.
تو جس استغفار میں ندامت و پشیمانی نہ ہو وہ توبہ کیسے ہو سکتی ہے ؟؟؟
کس کس کی کب توبہ قبول نہیں ہوگی:
إِنَّ الَّذينَ كَفَروا بَعدَ إيمٰنِهِم ثُمَّ ازدادوا كُفرًا لَن تُقبَلَ تَوبَتُهُم وَأُولٰئِكَ هُمُ الضّالّونَ {3:90}
جو لوگ منکر ہوئے مان کر پھر بڑھتے رہے انکار میں ہر گز قبول نہ ہوگی ان کی توبہ اور وہی ہیں گمراہ
یعنی جو لوگ حق کو مان کر اور سمجھ بوجھ کر منکر ہوئے پھر اخیر تک انکار میں ترقی کر تے رہے، نہ کھبی کفر سے ہٹنے کا نام لیا، نہ حق اور اہل حق کی عداوت ترک کی، بلکہ حق پرستوں کے ساتھ بحث و مناظرہ اور جنگ و جدل کرتے رہے۔ جب مرنے کا وقت آیا اور فرشتے جان نکالنے لگے تو توبہ کی سوجھی۔ یا کبھی کسی مصلحت سے ظاہر طور پر رسمی الفاظ توبہ کے کہہ لئے یا کفر پر برابر قائم رہتے ہوئے بعض دوسرے اعمال سے توبہ کر لی جنہیں اپنے زعم میں گناہ سمجھ رہے تھے۔ یہ توبہ کسی کام کی نہیں بارگاہ رب العزت میں اس کے قبول کی کوئی امید نہ رکھیں۔ ایسے لوگوں کو سچی توبہ نصیب ہی نہ ہو گی جو قبول ہو۔ ان کا کام ہمیشہ گمراہی کی وادیوں میں پڑے بھٹکتے رہنا ہے۔
إِنَّمَا التَّوبَةُ عَلَى اللَّهِ لِلَّذينَ يَعمَلونَ السّوءَ بِجَهٰلَةٍ ثُمَّ يَتوبونَ مِن قَريبٍ فَأُولٰئِكَ يَتوبُ اللَّهُ عَلَيهِم ۗ وَكانَ اللَّهُ عَليمًا حَكيمًا {4:17}
توبہ قبول کرنی اللہ کو ضرور تو انکی ہے جو کرتے ہیں برا کام جہالت سے پھر توبہ کرتے ہیں جلدی سے تو ان کو اللہ معاف کر دیتا ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا ہے حکمت والا [۳۵]
یعنی توبہ تو بیشک ایسی چیز ہے کہ زنا اور لواطت جیسے سنگین جرم بھی اس سے اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے جیسا کہ آیت سابقہ سے مفہوم ہوا لیکن اس کا بھی ضرور لحاظ رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے جو اپنے فضل سے قبول توبہ کا ذمہ لے لیا ہے وہ اصل میں ان لوگوں کے ساتھ مخصوص ہے جو ناواقفیت اور نادانی سے کوئی صغیرہ یا کبیرہ گناہ کر لیتے ہیں مگر جب اپنی خرابی پر متنبہ اور مطلع ہوتے ہیں تو جبھی نادم ہوتے ہیں اور توبہ کرتے ہیں سو ایسوں کی خطائیں اللہ ضرور معاف فرما دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے اس کو معلوم ہے کہ کس نے نادانی سے گناہ کیا اور کس نے اخلاص سے توبہ کی اور حکمت والا ہے جس توبہ کا قبول کرنا موافق حکمت ہوتا ہے اس کو قبول فرماتا ہے۔ {فائدہ} قید جہالت اور قید قریب سے معلوم ہو گیا کہ جو شخص گناہ تو کرے نادانی سے اور تنبیہ کے بعد توبہ کر لے جلدی سے تو بقاعدہ عدل و حکمت اس کی توبہ مقبول ہونی ضرور ہے اور جس نے جان بوجھ کر دیدہ و دانستہ اللہ کی نافرمانی پر جرأت کی یا اطلاع کے بعد اس نے توبہ میں تاخیر کی اور پہلی ہی حالت پر قائم رہا تو بقاعدہ عدل و انصاف اس کی خطا اصل میں معافی کے قابل نہیں اس کا قبول کر لینا اللہ تعالیٰ کا محض فضل ہے کہ اپنے فضل سے اللہ تعالیٰ ان دونوں توبہ کو بھی قبول کر لیتا ہے یہ اس کا احسان ہے۔ مگر ذمہ داری صرف اول صورت میں ہے باقی میں نہیں۔
وَلَيسَتِ التَّوبَةُ لِلَّذينَ يَعمَلونَ السَّيِّـٔاتِ حَتّىٰ إِذا حَضَرَ أَحَدَهُمُ المَوتُ قالَ إِنّى تُبتُ الـٰٔنَ وَلَا الَّذينَ يَموتونَ وَهُم كُفّارٌ ۚ أُولٰئِكَ أَعتَدنا لَهُم عَذابًا أَليمًا {4:18}
اور ایسوں کی توبہ نہیں جو کئے جاتے ہیں برے کام یہاں تک کہ جب سامنے آ جائے ان میں سے کسی کے موت تو کہنے لگا میں توبہ کرتا ہوں اب اور نہ ایسوں کی توبہ جو کہ مرتے ہیں حالت کفر میں ان کے لئے تو ہم نے تیار کیا ہے عذاب دردناک [۳۶]
یعنی اور ایسے لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہوتی جو برابر گناہ کئے جاتے ہیں اور باز نہیں آتے یہاں تک کہ جب موت ہی نظر آ گئ تو اس وقت کہنے لگا کہ اب میں توبہ کرتا ہوں اور نہ ان کی توبہ قبول ہو گی جو کفر پر مرگئے اور اس کے بعد عذاب اخروی کو دیکھ کر توبہ کریں۔ ایسے لوگوں کے واسطے عذاب شدید تیار ہے۔ جاننا چاہئے کہ یہ دونوں آیتیں جو دربارۂ قبول توبہ اور عدم قبول توبہ یہاں مذکور ہیں ہم نے جو ان کا مطلب بیان کیا یہ بعض اکابر محققین کی تحقیق کے موافق ہے اور اس میں یہ خوبی ہے کہ قید جہالت اور لفظ قریب دونوں اپنے ظاہری معنی پر قائم رہے اور علی اللہ کے معنی بھی سہولت سے بن گئے اور اس موقع پر قبول اور عدم قبول توبہ کے ذکر فرمانے سے جو مقصد ہے یعنی توبہ کیف مااتفق مقبول نہیں اور توبہ کی چند صورتیں ہیں اور ان کی مقبولیت میں باہم فرق ہے تاکہ کوئی توبہ کے اعتماد پر معاصی پر جری نہ ہو جائے یہ مقصد بھی اس صورت میں خوب حاصل ہو جاتا ہے مگر مفسرین حضرات نے علی العموم جو ان آیتوں کا مطلب ارشاد فرمایا ہے تو قید جہالت کو احترازی اور شرطی نہیں لیتے بلکہ قید واقعی فرماتے ہیں اور کہتے ہیں کہ گناہ ہمیشہ جہل اور حماقت سے ہوتا ہے اور قریب کے معنی یہ لیتے ہیں کہ حضور موت سے پہلے جس قدر وقت ہے وہ قریب ہی ہے کیونکہ دنیا کی زندگی قلیل ہے اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اللہ کا توبہ قبول فرمانے کا وعدہ ان سے ہے کہ سفاہت اور عدم انجام بینی سے گناہ کر لیتے ہیں اور پھر موت کے آنے سے پہلے تائب ہو جاتے ہیں اور جو لوگ کہ موت کو مشاہدہ کر چکے اور نزع کی حالت کو پہنچ چکے یا جو لوگ کہ کفر پر مر چکے ان کی تو بہ ہر گز قبول نہ ہو گی اس تقریر کے موافق توبہ کرنے والوں کی وہ دو صورتیں بین بین جو تقریر اول میں مذکور ہوئیں شق اول یعنی قبول توبہ کے اندر شمار ہو نگی۔ {فائدہ} جب موت کا یقین ہو چکے اور دوسرا عالم نظر آنے لگے تو اس وقت کی توبہ قبول نہیں اور عالم آخرت کے دیکھنے سے پہلے کی توبہ البتہ قبول ہوتی ہے۔ اتنا فرق ہے کہ حسب تقریر اول صورت اول میں تو قبول توبہ قاعدہ عدل و انصاف کے موافق ہے اور دوسری صورتوں میں قبول توبہ اس کا محض فضل ہے کما مّر۔
يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا توبوا إِلَى اللَّهِ تَوبَةً نَصوحًا عَسىٰ رَبُّكُم أَن يُكَفِّرَ عَنكُم سَيِّـٔاتِكُم وَيُدخِلَكُم جَنّٰتٍ تَجرى مِن تَحتِهَا الأَنهٰرُ يَومَ لا يُخزِى اللَّهُ النَّبِىَّ وَالَّذينَ ءامَنوا مَعَهُ ۖ نورُهُم يَسعىٰ بَينَ أَيديهِم وَبِأَيمٰنِهِم يَقولونَ رَبَّنا أَتمِم لَنا نورَنا وَاغفِر لَنا ۖ إِنَّكَ عَلىٰ كُلِّ شَيءٍ قَديرٌ {66:8}
اے ایمان والو توبہ کرو اللہ کی طرف صاف دل کی توبہ، امید ہے تمہارا رب اتار دے تم پر سے تمہاری برائیاں اور داخل کرے تم کو باغوں میں جنکے نیچے بہتی ہیں نہریں جس دن کہ اللہ ذلیل نہ کرے گا نبی کو اور اُن لوگوں کو جو یقین لاتے ہیں اُسکے ساتھ، اُنکی روشنی دوڑتی ہے اُنکے آگے اور اُنکے داہنے، کہتے ہیں اے رب ہمارے پوری کر دے ہماری روشنی اور معاف کر ہم کو بیشک تو سب کچھ کر سکتا ہے.
توبۃ النصوح کی تعریف:
صاف دل کی توبہ یہ کہ دل میں پھر گناہ کا خیال نہ رہے۔ اگر توبہ کے بعد ان ہی خرافات کا خیال پھر آیا تو سمجھو کہ توبہ میں کچھ کسر رہ گئ ہے۔ اور گناہ کی جڑ دل سے نہیں نکلی رزقنا اللّٰہ منھا حظا وافرابفضلہ وعونہ وھو علٰی کل شئ قدیر ۔
نبی ﷺ کا کہنا کیا۔ اس کے ساتھیوں کو بھی ذلیل نہ کریگا۔ بلکہ نہایت اعزارواکرام سے فضل و شرف کے بلند مناصب پر سرفراز فرمائے گا۔
ہماری روشنی آخر تک قائم رکھیے، بجھنے نہ دیجئے۔ جیسے منافقین کی نسبت سورۃ "حدید" میں بیان ہوچکا کہ روشنی بجھ جائیگی اور اندھیرے میں کھڑے رہ جائیں گے۔ مفسرین نے عمومًا یہ ہی لکھا ہے لیکن حضرت شاہ صاحبؒ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا کی مراد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "روشنی ایمان کی دل میں ہے، دل سے بڑھے تو سارے بدن میں، پھر گوشت پوست میں "(سرایت کرے)۔
==============================
استغفار کا حکم:
القرآن : وَاستَغفِرِ اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ كانَ غَفورًا رَحيمًا {4:106}
ترجمہ : اور خدا سے بخشش مانگنا بےشک خدا بخشنے والا مہربان ہے.
ایک مسلمان چور اور یہودی کا قصہ:
یعنی قبل تحقیق صرف ظاہر حال کو دیکھ کو چور کو بری اور یہودی مذکور کو چور خیال کر لینا تمہاری عصمت اور عظمت شان کے مناسب نہیں اس سے استغفار چاہئے اس میں کامل تنبیہ ہو گئ ان مخلصین کو جو بوجہ تعلق اسلامی یا قومی وغیرہ چور پر حسن ظن کر کے یہودی کے چور بنانے میں ساعی ہوئے۔
الحدیث : شیطان نے کہا : تیری عزت کی قسم ، اے رب ! میں تیرے بندوں کو جب تک روح ان کے جسموں میں موجود ہے ، بہکاتا رہوں گا . رب تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : میری عزت اور میرے جلال کی قسم ! میں بھی انھیں بخشتا رہوں گا، جب تک وہ استغفار (گناہوں سے بخشش) کرتے رہیں گے.
[المستدرك على الصحيحين » (4 : 256) رقم الحديث: 7738]
القرآن : أَفَلا يَتوبونَ إِلَى اللَّهِ وَيَستَغفِرونَهُ ۚ وَاللَّهُ غَفورٌ رَحيمٌ {5:74}
ترجمہ : تو یہ کیوں الله کے آگے توبہ نہیں کرتے اور اس سے گناہوں کی معافی نہیں مانگتے اور الله تو بخشنے والا مہربان ہے.
نصاریٰ کا کفر و شرک:
یہ اسی غفور رحیم کی شان ہے کہ ایسے ایسے باغی اور گستاخ مجرم بھی جب شرمندہ ہو کر اور اصلاح کا عزم کر کے حاضر ہوں تو ایک منٹ میں عمر بھر کے جرائم معاف فرما دیتا ہے۔
الحدیث : جو بندہ حالت سجدہ میں تین مرتبہ کہتا ہے " رَبِّ اغْفِرْ لِي " یعنی میرے رب مجھے بخش دے ، تو اس کے سر اٹھانے سے قبل ہی اس کی مغفرت کردی جاتی ہے.[المعجم الكبير للطبراني » بَابُ الطَّاءِ » مَنِ اسْمُهُ طَارِقٌ » طَارِقُ بْنُ أَشْيَمَ الأَشْجَعِيُّ ... رقم الحديث: 8116]
القرآن : وَأَنِ استَغفِروا رَبَّكُم ثُمَّ توبوا إِلَيهِ يُمَتِّعكُم مَتٰعًا حَسَنًا إِلىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى وَيُؤتِ كُلَّ ذى فَضلٍ فَضلَهُ ۖ وَإِن تَوَلَّوا فَإِنّى أَخافُ عَلَيكُم عَذابَ يَومٍ كَبيرٍ {11:3}
ترجمہ : اور یہ کہ اپنے پروردگار سے بخشش مانگو اور اس کے آگے توبہ کرو وہ تو تم کو ایک وقت مقررہ تک متاع نیک سے بہرہ مند کرے گا اور ہر صاحب بزرگ کو اس کی بزرگی (کی داد) دے گا۔ اور اگر روگردانی کرو گے تو مجھے تمہارے بارے میں (قیامت کے) بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے.
رجوع الی اللہ کے فوائد:
جو پچھلی تقصیرات معاف کرائے اور آئندہ کے لئے خدا کی طرف دل سےرجوع ہو تو دنیا کی زندگی اچھی طرح گذرے کیونکہ مومن قانت خواہ کسی حال میں ہو۔ مگر خدا کے فضل و کرم کی بڑی بڑی امیدیں رکھتا ہے وہ حق تعالیٰ کی رضاء جوئی اور مستقبل کی عظیم الشان خوشحالی کے تصور میں اس قدر گمن رہتا ہے کہ یہاں کی بڑی بڑی سختیوں کو خاطر میں نہیں لاتا وہ جب خیال کرتا ہےکہ میں اپنی زندگی کے فرائض صحیح طور پر انجام دے رہا ہوں جس کا صلہ مجھ کو ضرور ایک دن عرش والی سرکار سے ملنے والا ہے تو اپنی کامیابی اور حق تعالیٰ کے وعدوں پر اعتماد کر کے اس کا دل جوش مسرت سے اچھلنے لگتا ہے۔ اسےدنیا کی تھوڑی سے پونجی میں وہ سکون قلبی اور راحت باطنی نصیب ہوتی ہے جو بادشاہوں کو بیشمار سامانوں اور اموال و خزائن سے حاصل نہیں ہو سکتی بلکہ بعض اوقات یہاں کی چند روزہ تکلیفوں اور سختیوں میں وہ لذت پاتے ہیں جو اغنیاء و ملوک اپنے عیش و تنعم میں محسوس نہیں کرتے۔ ایک محب وطن سیاسی قیدی کو اگر فرض کیجئے یقین ہو جائے کہ میری اسیری سے ملک اجنبیوں کی غلامی سے آزاد ہو جائے گا اور مجھے قید سے نکلتے ہی ملک کی جمہوریہ کا صدر بنا دیا جائے گا۔ تو کیا اسے جیل خانہ کی بند کوٹھری میں سرور و اطمینان کی کیفیت اس بادشاہ سے زیادہ حاصل نہ ہو گی ؟ جس کے لئے ہر قسم کے سامان عیش و طرب فراہم ہیں مگر اندیشہ لگا ہوا ہے کہ وہ ایک ہفتہ کے اندر نہایت ذلت کےساتھ تخت شاہی سے اتارا جانے والا ہے۔ اسی پر دنیا کے جیل خانہ میں ایک مومن قانت کی زندگی کو قیاس کر لو۔
جو جس قدر یادہ بڑھ کر عمل کرے گا اسی قدر خدا کے فضل سےزیادہ حصہ پائے گا ۔ آخرت میں اجر و ثواب او ردنیا میں مزید طمانیت حاصل ہوگی ۔
یعنی میری بات نہ مانو گے تو قیامت کو عذاب یقینی ہے ، باقی یہ فرمانا کہ "میں ڈرتا ہوں" اس سے مقصود حضور کی عام شفقت و ہمدردی خلائق کا اظہار کرنا ہے۔
الحدیث : جس کی منشا و خواھش ہو کہ اس کا نامہ اعمال اس کے لئے خوش گوار ثابت ہو تو اس کو چاہئے کہ اس میں استغفار کی کثرت کرے.
[المحدث: السيوطي - المصدر: الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم: 8322 ، خلاصة حكم المحدث: حسن
المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 5955 ، خلاصة حكم المحدث: صحيح]
القرآن : فَاصبِر إِنَّ وَعدَ اللَّهِ حَقٌّ وَاستَغفِر لِذَنبِكَ وَسَبِّح بِحَمدِ رَبِّكَ بِالعَشِىِّ وَالإِبكٰرِ {40:55}
ترجمہ : تو صبر کرو بےشک خدا کا وعدہ سچا ہے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور صبح وشام اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے رہو.
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی اور استغفار کا حکم:
یعنی آپ بھی تسلی رکھیے، جو وعدہ آپ کے ساتھ ہے ضرور پورا ہو کر رہے گا۔ خداوند قدوس دارین میں آپ کو اور آپ کے طفیل میں آپ کے متبعین کو سر بلند رکھے گا۔ ضرورت اس کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہر قسم کے شدائد و نوائب پر صبر کریں۔ اور جن سے جس درجہ کی تقصیر کا امکان ہو اس کی معافی خدا سے چاہتے رہیں۔ اور ہمیشہ رات دن صبح و شام اپنے پروردگار کی تسبیح و تحمید کا قولًا و فعلًا ورد رکھیں۔ ظاہر و باطن میں اس کی یاد سے غافل نہ ہوں۔ پھر اللہ کی مدد یقینی ہے۔ یہ حضور ﷺ کو مخاطب بنا کر ساری امت کو سنایا۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں کہ "حضرت رسول اللہ ﷺ دن میں سو سو بار استغفار کرتے۔ ہر بندے کی تقصیر اس کے درجہ کے موافق ہے اس لئے ہر کسی کو استغفار ضروری ہے"۔
القرآن : قُل إِنَّما أَنا۠ بَشَرٌ مِثلُكُم يوحىٰ إِلَىَّ أَنَّما إِلٰهُكُم إِلٰهٌ وٰحِدٌ فَاستَقيموا إِلَيهِ وَاستَغفِروهُ ۗ وَوَيلٌ لِلمُشرِكينَ {41:6}
ترجمہ : کہہ دو کہ میں بھی آدمی ہوں جیسے تم۔ (ہاں) مجھ پر یہ وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود خدائے واحد ہے تو سیدھے اسی کی طرف (متوجہ) رہو اور اسی سے مغفرت مانگو اور مشرکوں پر افسوس ہے.
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت:
یعنی نہ میں خدا ہوں کہ زبردستی تمہارے دلوں کو پھیر سکوں، نہ فرشتہ ہوں جس کے بھیجے جانے کی تم فرمائش کیا کرتے ہو نہ کوئی اور مخلوق ہوں، بلکہ تمہاری جنس و نوع کا ایک آدمی ہوں جس کی بات سمجھنا تم کو ہم جنسی کی بنا پر آسان ہونا چاہئے، اور وہ آدمی ہوں جسے حق تعالیٰ نے اپنی آخری اور کامل ترین سچی وحی کیلئے چن لیا ہے۔ بناءً علیہ خواہ تم کتنا ہی اعراض کرو اور کتنی ہی یاس انگیز باتیں کرو، میں خدائی پیغام تم کو ضرور پہنچاؤں گا۔ مجھے بذریعہ وحی بتلایا گیا ہے کہ تم سب کا معبود اور حاکم علی الاطلاق ایک ہے جس کے سوا کسی کی بندگی نہیں۔ لہذا سب کو لازم ہے کہ تمام شئون و احوال میں سیدھے اسی خدائے واحد کی طرف رخ کر کے چلیں اس کے راستہ سے ذرا ادھر ادھر قدم نہ ہٹائیں اور پہلے اگر ٹیڑھے ترچھے چلے ہیں تو اپنے پروردگار سے اس کی معافی چاہیں۔ اور اگلی پچھلی خطائیں بخشوائیں۔
الحدیث : الله کی قسم ! میں ہر روز ستر سے زیادہ مرتبہ بارگاہ الہی میں توبہ و استغفار کرتا ہوں.[صحيح البخاري » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » بَاب اسْتِغْفَارِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ ... رقم الحديث: 5859]
ستر (٧٠) بار سے بھی زیادہ.[صحيح البخاري » رقم الحديث: 5859]
میرے دل پر بھی پردہ سا آجاتا ہے ، اور میں ایک دن میں سو سے زائد بار استغفار کرتا ہوں.[صحيح مسلم » كِتَاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَار ... » بَاب اسْتِحْبَابِ الِاسْتِغْفَارِ وَالِاسْتِكْثَارِ ... رقم الحديث: 4876]
کس طرح ؟ کن الفاظ میں ؟؟؟
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَنَا ، وَارْحَمْنَا ، وَتُبْ عَلَيْنَا ، إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ " .
[السنن الكبرى للنسائي » كِتَابُ الزِّينَةِ » كَيْفَ الاسْتِغْفَارُ ... رقم الحديث: 9859]
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ، إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُورُ [رقم الحديث: 9857]
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ، وَارْحَمْنِي ، وَتُبْ عَلَيَّ ، إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُورُ [رقم الحديث: 9856]
رَبِّ اغْفِرْ لِي ، وَتُبْ عَلَيَّ ، إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُورُ . [رقم الحديث: 9855]
القرآن : فَاعلَم أَنَّهُ لا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَاستَغفِر لِذَنبِكَ وَلِلمُؤمِنينَ وَالمُؤمِنٰتِ ۗ وَاللَّهُ يَعلَمُ مُتَقَلَّبَكُم وَمَثوىٰكُم {47:19}
ترجمہ : پس جان رکھو کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور (اور) مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لئے بھی۔ اور خدا تم لوگوں کے چلنے پھرنے اور ٹھیرنے سے واقف ہے.
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو استغفار کے حکم کی توضیح:
ہر ایک کا ذنب (گناہ) اس کے مرتبہ کے موافق ہوتا ہے۔ کسی کام کا بہت اچھا پہلو چھوڑ کر کم اچھا پہلو اختیار کرنا گو وہ حدود ءجواز و استحسان میں ہو، بعض اوقات مقربین کے حق میں ذنب (گناہ) سمجھا جاتا ہے۔ { حَسَنَاتُ الْابْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ } کے یہ ہی معنی ہیں۔ حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ دن میں سو بار استغفار فرماتے تھے (تنبیہ) { فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَااِلٰہَ اِلَّا للہُ } الخ کا خطاب ہر ایک مخاطب کو ہے۔ اور اگر خاص نبی کریم ﷺ مخاطب ہوں تو مطلب یہ ہے کہ اس علم پر برابر جمے رہیئے۔ اور استغفار کرتے رہے۔ اور { فَاعْلَمْ } کی تفریع ماقبل پر اس طرح ہے کہ قیامت آنے کے بعد کسی کو ایمان و توبہ وغیرہ نافع نہیں تو آدمی کو چاہئے کہ اس کے آنے سے قبل صحیح معرفت حاصل کرے۔ اور ایمان و استغفار کے طریق پر مستقیم رہے۔
یعنی جتنے پردوں میں پھرو گے پھر بہشت یا دوزخ میں پہنچو گے جو تمہار اصلی گھر ہے۔
الحدیث : جس مومن مرد و عورت کے لئے استغفار کیا ، اس کے لئے ہر مومن مرد و عورت کے بدلے ایک ایک نیکی لکھی جاۓ گی.
[مسند الشاميين للطبراني (3/234)» مَا انْتَهَى إِلَيْنَا مِنْ مُسْنَدِ يَعْلَى بْنِ ... رقم الحديث: 2118
المحدث: الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 10/213 ، خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد]
جس نے مومن مرد و عورت کے لئے ہر روز ستائیس (٢٧) بار الله سے استغفار کیا ، اس کو مستجاب الدعوات (وہ جس کی دعائیں قبول ہوں) میں لکھا جاۓ گا ، اور ان کے طفیل زمین والوں کو رزق رسانی ہوتی ہے.[الجامع الصغير السيوطي - الصفحة أو الرقم: 8420 ، خلاصة حكم المحدث: ضعيف]
القرآن : فَقُلتُ استَغفِروا رَبَّكُم إِنَّهُ كانَ غَفّارًا {71:10}
ترجمہ : اور کہا کہ اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے.
اللہ سے اپنے گناہ بخشواؤ:
یعنی باوجود سینکڑوں برس سمجھانےکے اب بھی اگر میری بات مان کر اپنے مالک کی طرف جھکو گے اور اس سے اپنی خطائیں معاف کراؤ گے تو وہ بڑا بخشنے والا ہے، پچھلے سب قصور یک قلم معاف کر دیگا۔
الحدیث : پروردگار بندے پر (از راہ رحمت و محبّت) تعجب فرماتا ہے ، جب وہ کہتا ہے : اے پروردگار ! میرے گناہ بخش دے ، اور جانتا ہے کہ میرے سوا گناہوں کو بخشنے والا کوئی نہیں.[جامع الترمذي » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » بَاب مَا يَقُولُ إِذَا رَكِبَ النَّاقَةَ ... رقم الحديث: 3392]
القرآن : فَسَبِّح بِحَمدِ رَبِّكَ وَاستَغفِرهُ ۚ إِنَّهُ كانَ تَوّابًا {110:3}
ترجمہ : تو اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرو اور اس سے مغفرت مانگو، بے شک وہ معاف کرنے والا ہے
غلبہ دین کا وعدہ اور تسبیح و تحمید کی تاکید:
یعنی سمجھ لیجیے کہ مقصود بعثت کا اور دنیا میں رہنے کا (جو تکمیل دین و تمہید خلافت کبریٰ ہے) پورا ہوا، اب سفر آخرت قریب ہے۔ لہٰذا ادھر سے فارغ ہو کر ہمہ تن ادھر ہی لگ جائیے۔ اور پہلے سے بھی زیادہ کثرت سے اللہ کی تسبیح و تحمید اور ان فتوحات اور کامیابیوں پر اس کا شکر ادا کیجیے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو استغفار کا حکم:
یعنی اپنے لئے اور امت کے لئے استغفار کیجیے۔ (تنبیہ) نبی کریم ﷺ کا اپنے لئے استغفار کرنا پہلے کئ جگہ بیان ہوچکا ہے، وہیں دیکھ لیا جائے۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں " یعنی قرآن میں ہر جگہ وعدہ ہے فیصلہ کا، اور کافر شتابی کرتے تھے۔ حضرت ﷺ کی آخر عمر میں مکہ فتح ہوچکا، قبائل عرب دَل کے دَل مسلمان ہونے لگے۔ وعدہ سچا ہوا اب امت کے گناہ بخشوایا کر کہ درجہ شفاعت کا بھی ملے۔ یہ سورت اتری آخر عمر میں، حضرت ﷺ نے جانا کہ میرا جو کام تھا دنیا میں کرچکا اب سفر ہے آخرت کا۔
الحدیث : کیا میں تمہیں ایسے کلمات نہ سکھاؤں کہ جب تم ان کو کہو گے تو الله تعالیٰ تمہاری مغفرت فرمادیں گے ، خواہ پہلے ہو چکی ہو؟ کہو : "الله کے سوا کوئی معبود نہیں ، جو عالی شان اور عظیم ہے ، الله کے سوا کوئی معبود نہیں ، جو بردبار اور کریم ہے ، الله کے سوا کوئی معبود نہیں ، جو ہر عیب سے پاک آسمانوں کا رب اور عرش عظیم کا رب ہے. اور تمام تعریفیں اس الله کے لئے ہیں جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے".
[جامع الترمذي » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » بَاب مَا جَاءَ فِي عَقْدِ التَّسْبِيحِ بِالْيَدِ ... رقم الحديث: 3450]
اور اسے روایت کیا ہے امام خطیب نے بھی ان الفاظ کے ساتھ : اگر تم ان کو کہو گے اور تم پر ذرات کے برابر خطائیں ہوں گی تب بھی الله بخش دے گا تمہیں.
[تاريخ بغداد للخطيب البغدادي » باب الطاء » ذكر من اسمه طاهر ... رقم الحديث: 3151]
استغفار کب کب کرنا چاہیے:
القرآن : وَالَّذينَ إِذا فَعَلوا فٰحِشَةً أَو ظَلَموا أَنفُسَهُم ذَكَرُوا اللَّهَ فَاستَغفَروا لِذُنوبِهِم وَمَن يَغفِرُ الذُّنوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَم يُصِرّوا عَلىٰ ما فَعَلوا وَهُم يَعلَمونَ {3:135}
ترجمہ : اور وہ کہ جب کوئی کھلا گناہ یا اپنے حق میں کوئی اور برائی کر بیٹھتے ہیں تو الله کو یاد کرتے اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں اور الله کے سوا گناہ بخش بھی کون سکتا ہے؟ اور جان بوجھ کر اپنے افعال پر اڑے نہیں رہتے.
محسنین کی صفات:
یعنی کھلم کھلا کوئی بےحیائی کا کام کر گذریں جس کا اثر دوسروں تک متعدی ہو یا کسی اور بری حرکت کے مرتکب ہو جائیں جس کا ضرر ان ہی کی ذات تک محدود رہے۔
الحدیث : میری امّت کے بہترین افراد وہ ہیں کہ جب ان سے برائی سرزد ہوجاتی ہے تو استغفار کرلیتے ہیں اور جب ان سے کوئی نیکی کا کام انجام پاجاتا ہے تو خوش ہوتے ہیں، اور جب سفر پر گامزن ہوتے ہیں تو الله کی رخصت قبول کرتے ہوۓ نماز میں قصر اور روزوں میں افطار کرتے ہیں.
[سنن ابن ماجه:3818، مسند أحمد بن حنبل:24419]
القرآن : وَمَن يَعمَل سوءًا أَو يَظلِم نَفسَهُ ثُمَّ يَستَغفِرِ اللَّهَ يَجِدِ اللَّهَ غَفورًا رَحيمًا {4:110}
ترجمہ : اور جو شخص کوئی برا کام کر بیٹھے یا اپنے حق میں ظلم کرلے پھر خدا سے بخشش مانگے تو خدا کو بخشنے والا اور مہربان پائے گا.
سُوء اور ظلم کا فرق:
سوء اور ظلم سے بڑے اور چھوٹے گناہ مراد ہیں یا سوء سے وہ گناہ مراد ہے جس سے دوسرے کو درد پہنچے جیسے کسی پر تہمت لگانی اور ظلم وہ ہے کہ اس کی خرابی اپنے ہی نفس تک رہے یعنی گناہ کیسا ہی ہو اس کا علاج استغفار اور توبہ ہے توبہ کے بعد اللہ تعالیٰ البتہ معاف فرما دیتا ہے اگر آدمیوں نے جان بوجھ کر فریب سے کسی مجرم کی برأت ثابت کر دی یا غلطی سے مجرم کو بےقصور سمجھ گئے تو اس سے اس کے جرم میں تخفیف بھی نہیں ہو سکتی البتہ توبہ سے بالکل معاف ہو سکتا ہے اس میں اس چور اور اس کے سب طرفداروں کو جو دیدہ و دانستہ طرفدار بنے ہوں یا غلطی سے سبھی کو توبہ اور استغفار کا ارشاد ہو گیا اور اشارہ لطیف اس طرف بھی ہو گیا کہ اب بھی اگر کوئی اپنی بات پر جما رہے گا اور توبہ نہ کرے گا تو اللہ کی بخشش اور اس کی رحمت سے محروم ہو گا۔
استغفار کے معمول کا بہترین وقت:
القرآن : الصّٰبِرينَ وَالصّٰدِقينَ وَالقٰنِتينَ وَالمُنفِقينَ وَالمُستَغفِرينَ بِالأَسحارِ {3:17}
ترجمہ : یہ وہ لوگ ہیں جو (مشکلات میں) صبر کرتے اور سچ بولتے اور عبادت میں لگے رہتے اور (راہ خدا میں) خرچ کرتے اور اوقات سحر میں گناہوں کی معافی مانگا کرتے ہیں.
اچھے بندوں کے اوصاف:
یعنی اللہ کے راستہ میں بڑی بڑی تکلیفیں اٹھا کر بھی اس کی فرمانبرداری پر جمے رہتے اور معصیت سے رکے رہتے ہیں۔ زبان کے، دل کے، نیت کے، معاملہ کے سچے ہیں۔ پوری تسلیم و انقیاد کے ساتھ خدا کے احکام بجا لاتے ہیں۔ خدا کی دی ہوئی دولت کو اس کے بتلائے ہوئے مواقع میں خرچ کرتے ہیں۔ اور پچھلی رات میں اٹھ کر (جو طمانیت و اجابت کا وقت ہوتا ہے لیکن اٹھنا اس وقت سہل نہیں ہوتا) اپنے رب سے گناہ اور تقصیرات معاف کراتے ہیں۔ { کَانُوْ اقَلِیْلاً مِّنَ الَّیْلِ مَا یَھْجَعُوْنَ وَ بِالْاَ سْحَارِھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ } (ذاریات رکوع ۱) یعنی اکثر رات عبادت میں گذارتے اور سحر کے وقت استغفار کرتے کہ خداوند ! عبادت میں جو تقصیر رہ گئ اپنے فضل سے معاف فرمانا۔
الحدیث : کیا میں تجھے سید الاستغفار (دعاۓ بخشش کا سردار) نہ بتاؤں؟ (وہ یہ ہے کہ) : اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ وَأَبُوءُ إِلَيْكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ ، وَأَعْتَرِفُ بِذُنُوبِي ، فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ
"اے الله تو ہی میرا رب ہے ، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، تو نے ہی مجھے پیدا کیا ، میں تیرا بندہ ہوں ، اپنی ہمّت و وسعت کے بقدر تیرے ساتھ کے ہوۓ عہد و پیمان پر کاربند ہوں ، میں تیری پناہ چاہتا ہوں اپنے کاموں کے شر سے ، میں اقرار کرتا ہوں تیری نعمتوں کا مجھ پر ، اور میں اقرار کرتا ہوں اپنے گناہوں کا بھی ، بس مجھے بخش دے یقیناً نہیں ہے کوئی گناہوں کو بخشنے والا تیرے سوا".
جو بندہ شام کو یہ کہتا ہے اور پھر صبح سے قبل اس کی موت آجاتی ہے تو اس کے لئے جنّت واجب ہوجاتی ہے.[جامع الترمذي » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » بَاب مَا جَاءَ فِي الدُّعَاءِ إِذَا أَصْبَحَ وَإِذَا ... رقم الحديث: 3340]
(اور ایک روایت میں آیا ہے) جس نے دن کے وقت اس کلمہ کو دل کے یقین کے ساتھ کہا اور پھر شام سے قبل موت نے آلیا تو وہ اہل جنّت میں شمار ہوگا.[صحيح البخاري » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » بَاب أَفْضَلِ الِاسْتِغْفَارِ ... رقم الحديث: 5858]
(نسائی کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ) اور جس نے ان کلمات کو رات کے وقت دل کے یقین کے ساتھ کہا اور صبح سے قبل موت نے آلیا تو وہ اہل جنّت میں شمار ہوگا.[سنن النسائى الصغرى » كِتَاب الِاسْتِعَاذَةِ » الِاسْتِعَاذَةِ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعَ ... رقم الحديث: 5455]
القرآن : وَبِالأَسحارِ هُم يَستَغفِرونَ {51:18}
ترجمہ : اور اوقات سحر میں بخشش مانگا کرتے تھے.
محسنین اور متقین کی صفات:
یعنی رات کا اکثر حصہ عبادت الہٰی میں گذارتے اور سحر کے وقت جب رات ختم ہونے کو آتی اللہ سے اپنی تقصیرات کی معافی مانگتے کہ الہٰی حق عبودیت ادا نہ ہوسکا۔ جو کوتاہی رہی اپنی رحمت سے معاف فرما دیجئے۔ کثرت عبادت ان کو مغرور نہ کرتی تھی۔ بلکہ جس قدر بندگی میں ترقی کرتے جاتے خشیت و خوف بڑھتا جاتا تھا۔
الحدیث : جس نے ہر فرض نماز کے بعد الله سے یوں استغفار کیا تین بار : ((أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ الَّذِي لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ )) یعنی میں الله سے اپنے گناہوں کی بخشش کا طلبگار ہوں ، جس کے سوا کوئی پرستش کے لائق نہیں ، وہ ہمیشہ سے زندہ ہے ، ہر شے اسی کے دم سے قائم ہے اور میں اسی کی طرف رجوع و توبہ تائب ہوتا ہوں. تو اس کے تمام گناہ بخش دیے جائیں گے خواہ جنگ سے بھاگنے کا گناہ کیوں نہ ہو.
[عمل اليوم والليلة لابن السني » بَابُ : مَا يَقُولُ فِي دُبُرِ صَلاةِ الصُّبْحِ ... رقم الحديث: 136]
مشرکین اور منافقین کے لئے استغفار (بخشش کی دعا) ممنوع:
القرآن : ما كانَ لِلنَّبِىِّ وَالَّذينَ ءامَنوا أَن يَستَغفِروا لِلمُشرِكينَ وَلَو كانوا أُولى قُربىٰ مِن بَعدِ ما تَبَيَّنَ لَهُم أَنَّهُم أَصحٰبُ الجَحيمِ {9:113}
ترجمہ : پیغمبر اور مسلمانوں کو شایاں نہیں کہ جب ان پر ظاہر ہوگیا کہ مشرک اہل دوزخ ہیں۔ تو ان کے لیے بخشش مانگیں گو وہ ان کے قرابت دار ہی ہوں.
بد عہد کفار سے قتال:
مومنین جب جان و مال سے خدا کے ہاتھ بیع ہو چکے تو ضروری ہے کہ تنہا اسی کے ہو کر رہیں۔ اعداء اللہ سے جن کا دشمن خدا اور جہنی ہونا معلوم ہو چکا ہو۔ محبت و مہربانی کا واسطہ نہ رکھیں۔ خواہ یہ دشمنان خدا ان کے ماں باپ ، چچا، تایا اور خاص بھائی بند ہی کیوں نہ ہوں۔ جو خدا کا باغی اور دشمن ہے وہ اس کا دوست کیسے ہو سکتا ہے۔ پس جس شخص کی بابت پتہ چل جائے کہ بالیقین دوزخی ہے۔ خواہ وحی الہٰی کے ذریعہ سے یا اس طرح کہ علانیہ کفر و شرک پر اس کو موت آ چکی ہو اس کے حق میں استغفار کرنا اور بخشش مانگنا ممنوع ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ یہ آیت آنحضرت ﷺ کی والدہ حضرت آمنہ کے بارہ میں نازل ہوئی۔ بعض احادیث میں مذکور ہے کہ آپ ﷺ کے چچا ابو طالب کے حق میں اتری ۔ اور بعض نے نقل کیا ہے کہ مسلمانوں نے چاہا کہ اپنے آباء مشرکین کے لئے جو مر چکے تھے استغفار کریں۔ اس آیت میں ان کو منع کیا گیا۔ بہرحال شان نزول کچھ ہو حکم یہ ہےکہ کفار و مشرکین کے حق میں جن کا خاتمہ کفر و شرک پر معلوم ہو جائے استغفار جائز نہیں۔ (تنبیہ) حضور ﷺ کے والدین کے بارہ میں علمائے اسلام کے اقوال بہت مختلف ہیں۔ بعض نے ان کو مومن و ناجی ثابت کرنے کے لئے مستقل رسائل لکھے ہیں اور شراح حدیث نے محدثانہ متکلمانہ بحثیں کی ہیں ۔ احتیاط و سلامت روی کا طریقہ اس مسئلہ میں یہ ہے کہ زبان بند رکھی جائے۔ اور ایسے نازک مباحث میں خوض کرنے سے احتراض کیا جائے۔ حقیقت حال کو خدا ہی جانتا ہے اور وہ ہی تمام مسائل کا ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرنے والا ہے۔
القرآن : استَغفِر لَهُم أَو لا تَستَغفِر لَهُم إِن تَستَغفِر لَهُم سَبعينَ مَرَّةً فَلَن يَغفِرَ اللَّهُ لَهُم ۚ ذٰلِكَ بِأَنَّهُم كَفَروا بِاللَّهِ وَرَسولِهِ ۗ وَاللَّهُ لا يَهدِى القَومَ الفٰسِقينَ {9:80}
ترجمہ : تم ان کے لیے بخشش مانگو یا نہ مانگو۔ (بات ایک ہے)۔ اگر ان کے لیے ستّر دفعہ بھی بخشش مانگو گے تو بھی خدا ان کو نہیں بخشے گا۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے خدا اور اس کے رسول سے کفر کیا۔ اور خدا نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا.
منافقین کے لئے استغفار عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ:
یعنی منافقین کے لئے آپ ﷺ کتنی ہی مرتبہ استغفار کیجئے ان کے حق میں بالکل بیکار اور بے فائدہ ہے۔ خدا ان بدبخت کافروں اور نافرمانوں کو کبھی معاف نہ کرے گا۔ واقعہ یہ پیش آیا کہ مدینہ میں رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کا انتقال ہوا۔ آپ ﷺ نے قمیص مبارک کفن میں دیا ، لعاب مبارک اس کے منہ میں ڈالا۔ نماز جنازہ پڑھی اور دعائے مغفرت کی ۔ حضرت عمرؓ اس معاملہ میں آڑے آتے تھے اور کہتے تھے کہ یا رسول اللہ ﷺ! یہ وہی خبیث تو ہے جس نے فلاں فلاں وقت ایسی ایسی نالائق حرکات کیں۔ ہمیشہ کفر و نفاق کا عملبردار رہا۔ کیا حق تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا { اِسْتَغْفِرْ لَھُمْ اَوْلَا تَسْتَغْفِرْ لَھُمْ ؕ اِنْ تَسْتَغْفِرْ لَھُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَنْ یَّغْفِرَ اللہُ لَھُمْ } آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے عمرؓ ! مجھ کو استغفار سے منع نہیں کیا گیا ۔ بلکہ آزاد رکھا گیا ہے کہ استغفار کروں یا نہ کروں۔ یہ خدا کا فعل ہے کہ ان کو معاف نہ کرے۔ یعنی ان کے حق میں میرا استغفار نافع نہ ہو (سو ان کے حق میں نہ سہی ممکن ہے دوسروں کے حق میں میرا یہ طرز عمل نافع ہو جائے دوسرے لوگ سب سے بڑے موذی دشمن کے حق میں نبی کے اس وسعت اخلاق اور وفور رحمت و شفقت کو دیکھ کر اسلام و پیغمبر کے گرویدہ ہو جائیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا) صحیح بخاری کی ایک روایت میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر میں جانتا کہ ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کرنے سے اس کی مغفرت ہو سکتی ہے تو میں ستر مرتبہ سے زائد استغفار کرتا" گویا اس جملہ میں حضور ﷺ نے متنبہ فرمایا کہ حضرت عمرؓ کی طرح آپ ﷺ بھی اس کے حق میں استغفار کو غیر مفید تصور فرما رہے تھے۔ فرق اس قدر ہے کہ حضرت عمرؓ کی نظر "بغض فی اللہ " کے جوش میں صرف اسی نقطہ پر مقصور تھی اور نبی کریم ﷺ میت کے فائدہ سے قطع نظر فرما کر عام پیغمبرانہ شفقت کا اظہار اور احیاء کے فائدہ کا خیال فرما رہے تھے۔ لیکن آخر کار وحی الہٰی { وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓی اَحَدٍ مِنْھُمْ مَاتَ اَبَدً اَولَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ } نے صریح طور پر منافقین کا جنازہ پڑھنے یا ان کے اہتمام دفن و کفن وغیرہ میں حصہ لینے کی ممانعت کر دی۔ کیونکہ اس طرز عمل سے منافقین کی ہمت افزائی اور مومنین کی دل شکستگی کا احتمال تھا۔ اس وقت سے حضور ﷺ نے کسی منافق کے جنازہ کی نماز نہیں پڑھی۔
القرآن : سَواءٌ عَلَيهِم أَستَغفَرتَ لَهُم أَم لَم تَستَغفِر لَهُم لَن يَغفِرَ اللَّهُ لَهُم ۚ إِنَّ اللَّهَ لا يَهدِى القَومَ الفٰسِقينَ {63:6}
ترجمہ : تم ان کے لئے مغفرت مانگو یا نہ مانگو ان کے حق میں برابر ہے۔ خدا ان کو ہرگز نہ بخشے گا۔ بےشک خدا نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا.
ان منافقین کے لئے معافی نہیں:
یعنی ممکن ہے آپ غایت رحمت و شفقت سے ان کے لئے بحالتِ موجودہ معافی طلب کریں۔ مگر اللہ کسی صورت سے ان کو معاف کرنیوالا نہیں، اور نہ ایسے نافرمانوں کو اس کے ہاں سے ہدایت کی توفیق ملتی ہے۔ اس طرح کی ایک آیت سورۃ "براءۃ" میں آچکی ہے۔ وہاں کے فوائد دیکھ لئے جائیں۔

Wednesday, July 23, 2014

Peshawar | پشاور - پېښور


Peshawar | پشاور - پېښور
پشاور صوبائی دارالحکومت اور خیبر پختونخواہ کا سب سے بڑا شہر اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کے لئے انتظامی مرکز ہے. شہر درہ خیبر کے مشرق اختتام کے قریب دریائے کابل وادی میں واقع ہے اور وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے درمیان سنگم پر دیتا ہے. پشاور اب پاکستان کے سب سے زیادہ نسلی اور لسانی متنوع شہروں میں سے ایک میں تیار کیا ہے اور ایک اہم تعلیمی، سیاسی اور کاروباری مرکز رہتا ہے. 

آبادی - 2.739.205 
 رقبہ - 1257 km2
   
ترقی - 359 M 
یونین کونسلیں - 25 
پوسٹل کوڈ - 25000 
علاقے کے کوڈ - 091

Islamia College, Peshawar

Peshawar is the provincial capital and largest city of Khyber Pakhtunkhwa and the administrative centre for the Federally Administered Tribal Areas. The city is situated in the Kabul river valley near the east end of the Khyber Pass and places it at the crossroads between Central Asia and South Asia. Peshawar has now evolved into one of Pakistan's most ethnically and linguistically diverse cities and remains a major educational, political and 
business center

Population - 2,739,205
Area - 1257 km2

Elevation - 359 m
Union Councils - 25
Postal Code - 25000
Area code - 091
Balahisar Fort...
University Of Peshawar...

تقدیر... مصیبت کی سختی اور بدبختی کے پانے، اور تقدیر کی برائی اور دشمنوں کے طعنے سے اللہ تبارک وتعالی کی پناہ مانگو۔


تقدیر

مصیبت کی سختی اور بدبختی کے پانے، اور تقدیر کی برائی اور دشمنوں کے طعنے سے اللہ تبارک وتعالی کی پناہ مانگو۔--------------------------------------------------------
-صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2222 

حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ صادق و مصدوق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم میں سے ہر ایک کا نطفہ اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن جمع رہتا ہے پھر اسی میں جما (پھٹکی بنا ہؤا)ہوا خون اتنی مدت رہتا ہے پھر اتنی ہی مدت میں گوشت کا لوتھڑا بن جا تا ہےپھرفرشتہ بھیجا جاتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے اور اسے چار کلمات لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے اس کا رزق، عمر، عمل اور شقی یا سعید ہونا اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں بے شک تم میں سے کوئی اہل جنت کے عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس پر تقدیر کا لکھا ہوا غالب آجاتا ہے اور وہ اہل جہنم کا سا عمل کر لیتا ہے اور جہنم میں داخل ہو جاتا ہے اور تم میں سے کوئی اہل جہنم جیسے اعمال کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس پر تقدیر کا لکھا ہوا غالب آجاتا ہے اور وہ اہل جنت والا کر لیتا ہے اور جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔

صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2230 

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم ایک جنازہ کے ساتھ بقیع الغرقد میں تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لا کر بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ کے اردگرد بیٹھ گئے اور آپ کے پاس ایک چھڑی تھی پس آپ نے سر جھکایا اور اپنی چھڑی سے زمین کو کریدنا شروع کردیا پھر فرمایا تم میں سے کوئی جان(نفس) ایسا نہیں جس کا مکان جنت یا دوزخ میں اللہ نے نہ لکھ دیا ہو اور شقاوت وسعادت بھی لکھ دی جاتی ہے 

ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا ہم اپنی تقدیر پر ٹھہرے نہ رہیں اور عمل چھوڑ دیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اہل سعادت میں سے ہوگا وہ اہل سعادت کے عمل ہی کی طرف ہو جائے گا اور جو اہل شقاوت میں سے ہوگا وہ اہل شقاوت ہی کے عمل کی طرف جائے گا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم عمل کرو ہر چیز آسان کر دی گئی ہے بہر حال اہل سعادت کے لئے اہل سعادت کے سے اعمال کرنا آسان کر دیا ہے 

پھر آپ نے فرمایا ( مَنْ أَعْطَی وَاتَّقَی وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَی) 

تلاوت فرمائی جس نے صدقہ کیا اور تقوی اختیار کیا اور نیکی کی تصدیق کی تو ہم اس کے لئے نیکیوں کو آسان کر دیں گے اور بخل کیا اور لا پرواہی کی اور نیکی کو جھٹلایا تو ہم اس کے لئے برائیوں کو آسان کردیں گے۔


صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2232 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن بیٹھے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین کرید رہے تھے آپ نے اپنا سر مبارک اٹھا کر فرمایا تم میں سے ہر ایک کا مقام جنت یا دوزخ میں معلوم ہے۔ صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول تو پھر ہم عمل کیوں کریں کیا ہم بھروسہ نہ کریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ عمل کرو ہر آدمی کے لئے انہیں کاموں کو آسان کیا جاتا ہے جس کے لئے اس کی پیدائش کی گئی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (فَأَمَّا مَنْ أَعْطَی وَاتَّقَی وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَی) تک تلاوت کی۔


صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2234

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آکر عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ ہمارے لئے ہمارے دین کو واضح کریں۔ گویا کہ ہمیں ابھی پیدا کیا گیا ہے آج ہمارا عمل کس چیز کے مطابق ہے کیا ان سے متعلق ہے جنہیں لکھ کر قلم خشک ہو چکے ہیں اور تقدیر جاری ہو چکی ہے یا اس چیز سے متعلق ہیں جو ہمارے سامنے آتی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ ان سے متعلق ہیں جنہیں لکھ کر قلم خشک ہو چکے ہیں اور تقدیر جاری ہو چکی ہے سراقہ نے عرض کیا پھر ہم عمل کیوں کریں؟ زہیر نے کہا پھر ابوالزبیر نے کوئی کلمہ ادا کیا لیکن میں اسے سمجھ نہ سکا میں نے پوچھا آپ نے کیا فرمایا؟ تو انہوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمل کئے جاؤ ہر ایک کے لئے اس کا عمل آسان کردیا گیا ہے۔

صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2236 

حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول کیا اہل جنت اہل جہنم معلوم ہو چکے ہیں تو آپ نے فرمایا ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا پھر عمل کرنے والے عمل کس لئے کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر آدمی جس عمل کے لئے پیدا کیا گیا اس کے لئے وہ عمل آسان کردیا گیا ہے۔


صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2238

حضرت ابوالاسود دیلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے عمران بن حصین نے کہا کیا تو جانتا ہے کہ آج لوگ عمل کیوں کرتے ہیں اور اس میں مشقت کیوں برداشت کرتے ہیں کیا یہ کوئی ایسی چیز ہے جس کا فیصلہ ہوچکا ہے اور تقدیر الہی اس پر جاری ہو چکی ہے یا وہ عمل ان کے سامنے آتے ہیں جنہیں ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت نے دلائل ثابتہ سے واضح کردیا ہے تو میں نے کہا نہیں بلکہ ان کا عمل ان چیزوں سے متعلق ہے جن کا حکم ہو چکا ہے اور تقدیر ان میں جاری ہو چکی ہے تو عمران نے کہا کیا یہ ظلم نہیں ہے راوی کہتے ہیں کہ اس سے میں سخت گھبرا گیا اور میں نے کہا ہر چیز اللہ کی مخلوق اور اس کی ملکیت ہے پس اس سے اس کے فعل کی باز پرس نہیں کی جاسکتی اور لوگوں سے تو پوچھا جائے گا تو انہوں نے مجھے کہا اللہ تجھ پر رحم فرمائے میں نے آپ سے یہ سوال صرف آپ کی عقل کو جانچنے کے لئے ہی کیا تھا (ایک مرتبہ )قبیلہ مزنیہ کے دو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ لوگ آج عمل کس بات پر کرتے ہیں اور کس وجہ سے اس میں مشقت برادشت کرتے ہیں کیا یہ کوئی ایسی چیز ہے جس کے بارے میں حکم صادر ہو چکا ہے اور اس میں تقدیر جاری ہو چکی ہے یا ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو احکام لے کرئے ہیں اور تبلیغ کی حجت ان پر قائم ہو چکی ہے اس کے مطابق عمل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ ان کا عمل اس چیز کے مطابق ہے جس کا فیصلہ ہو چکا ہے اور تقدیر اس میں جاری ہو چکی ہے اور اس کی تصدیق اللہ کی کتاب میں (وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا) موجود ہے اور قسم ہے انسان کی اور جس نے اس کو بنایا اور اسے اس کی بدی اور نیکی کا الہام فرمایا۔


صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2241 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت آدم و موسیٰ علیہما السلام کے درمیان مکالمہ ہوا تو موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اے آدم آپ ہمارے باپ ہیں آپ نے ہمیں نامراد کیا اور ہمیں جنت سے نکلوایا۔ تو ان سے حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا تم موسیٰ ہو اللہ نے آپ کو اپنے کلام کے لئے منتخب کیا اور آپ کے لئے اپنے دست خاص سے تحریر لکھی کیا آپ مجھے ایسی بات پر ملامت کر رہے ہیں جسے میرے پیدا کرنے سے چالیس سال پہلے ہی مجھ پر مقدر فرما دیا گیا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پس آدم موسیٰ پر غالب آگئے پس آدم موسیٰ پر غالب آگئے دوسری روایت میں ہے کہ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا تیرے لئے تورات کو اپنے ہاتھ سے لکھا۔


صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2247

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ نے آسمان و زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے مخلوقات کی تقدیر لکھی اور اللہ کا عرش پانی پر تھا۔

صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2251 

مشرکینِ قریش رسول اللہ سے تقدیر کے بارے میں جھگڑا کرنے کے لئے آئے تو یہ آیت نازل ہوئی (يَوْمَ يُسْحَبُوْنَ فِي النَّارِ عَلٰي وُجُوْهِهِمْ ذُوْقُوْا مَسَّ سَقَرَ) 54۔ القمر : 48) جس دن وہ جہنم میں اوندھے منہ گھسیٹے جائیں گے اور کہا جائے گا دوزخ کا عذاب چکھو بے شک ہم نے ہر چیز کو تقدیر کے ساتھ پیدا کیا ہے۔

صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2250 

ہر چیز تقدیر سے وابستہ ہے اور میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ نے فرمایا ہر چیز تقدیر سے وابستہ ہے یہاں تک کہ عجز اور قدرت یا قدرت اور عجز۔

صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2254 رسول اللہ نے فرمایا ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پس اس کے والدین اسے یہودی نصرانی اور مجوسی بنا دیتے ہیں جیسے کہ جانور کے پورے اعضاء والا جانور پیدا ہوتا ہے کیا تمہیں ان میں کوئی کٹے ہوئے عضو والا جانور معلوم ہوتا ہے پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اگر تم چاہو تو آیت

(فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا) 30۔ الروم : 30) پڑھ لو یعنی اے لوگو اللہ کی بنائی ہوئی فطرت (دین اسلام ہے) کو لازم کرلو جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اللہ کی مخلوق میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ 

صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1555 آپ نے فرمایا مصیبت کی سختی اور بدبختی کے پانے، اور تقدیر کی برائی اور دشمنوں کے طعنے سے اللہ تبارک وتعالی کی پناہ مانگو۔


صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2249 

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے تمام بنی آدم کے دل رحمن کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ایک دل کی طرح ہیںجسے چاہتا ہے اسے پھیر دیتا ہے پھر رسول اللہ نے فرمایا

(اللَّهُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوبِ صَرِّفْ قُلُوبَنَا عَلَی طَاعَتِکَ)
اے اللہ دلوں کے پھیرنے والے ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت پر پھیر دے۔

.....................................

جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 11 حدیث مرفوع مکررات 2قتیبہ بن سعید، لیث، ابوقبیل، شفی بن ماتع، حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے جبکہ آپ کے پاس دو کتابیں تھیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تم لوگ جانتے ہو کہ یہ کتابیں کیا ہیں ہم نے عرض کیا نہیں مگر یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں بتائیں آپ نے دائیں ہاتھ والی کتاب کے متعلق فرمایا یہ (رَبِّ الْعَالَمِينَ) کی طرف سے ہے اور اس میں اہل جنت کے نام ہیں پھر ان کے آباء اجداد اور ان کے قبیلوں کا ذکر کرنے کے بعد آخر میں میزان ہے پھر ان میں نہ کمی ہوگی اور نہ زیادتی ہوگی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بائیں ہاتھ والی کتاب کے متعلق فرمایا کہ یہ بھی (رَبِّ الْعَالَمِينَ) کی طرف سے ہے اس میں اہل دوزخ ان کے آباء اجداد اور قبائل کے نام مذکور ہیں اور پھر آخر میں میزان کر دیا گیا ہے اس کے بعد ان میں کمی نہ ہوگی اور نہ زیادتی صحابہ کرام نے عرض کیا تو پھر عمل کا کیا فائدہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سیدھی راہ چلو میانہ روی اختیار کرو کیونکہ جنتی کا خاتمہ جنت والوں ہی کے عمل پر ہوگا اگر اس سے پہلے کیسے بھی عمل ہوں اور اہل دوزخ کا خاتمہ دوزخ والوں کے اعمال پر ہی ہوگا خواہ اس سے پہلے اس نے کسی طرح کے بھی عمل کئے ہوں پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھوں سے اشارہ کیا اور دونوں کتابوں کو پھینک دیا پھر فرمایا تمہارا رب بندوں سے فارغ ہو چکا ہے ایک فریق جنت میں اور دوسرا دوزخ میں ہے۔

..................................................  
  •   عمل خاتمے پر موقوف ہے

    صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1545
    ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ ہم لوگ رسول اللہ کے ساتھ خیبر میں تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ساتھیوں میں سے ایک شخص کے متعلق جو اسلام کا دعوی کرتا تھا فرمایا کہ اہل نار میں سے ہے
    جب لڑائی کا وقت آیا تو اس آدمی نے بہت زیادہ ثابت قدمی دکھائی۔
    نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ آپ نے جس شخص کے متعلق فرمایا تھا کہ وہ اہل نار میں سے ہے اس نے اللہ کی راہ میں بہت سخت جنگ کی ہے اور اس کی وجہ سے بہت زخمی ہوگیا ہے اب اس کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں
    نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ سن لو کہ وہ اہل نار میں سے ہے بعض مسلمانوں کو اس میں شبہ ہونے لگا وہ آدمی ابھی اس حال میں تھاکہ اس نے زخم کی تکلیف محسوس کی اس نے اپنا ہاتھ ترکش کی طرف بڑھایا اور اس سے تیر کھینچ کر اپنی گردن میں چبھو دیا۔
    مسلمانوں میں سے کچھ لوگ رسول اللہ کی خدمت میں دوڑ کر آئے اور ان لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ نے آپ کی بات سچ کر دکھلائی فلاں شخص نے اپنی گردن کاٹ کر خود کشی کرلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے بلال کھڑے ہو کر اعلان کردو کہ جنت میں مومن ہی داخل ہوگا اور اللہ اس دین کی فاجر شخص سے بھی مدد کرتاہے.


Monday, July 21, 2014

اسرائیل کی درندگی…تاریخی پس منظر

اسرائیل کی درندگی…تاریخی پس منظر
الارضِ مقدس فلسطین ایک بار پھر صہیونی یہودی ساحلی شہر غزہ جہاں رسول پاک ﷺ کے پردادا جناب ہاشم تجارت کے لئے تشریف لائے تھے،انتقال کے بعد وہیں دفن ہوئے جس کے باعث بحیرہ روم کا یہ ہاشم کہلانے لگا

محسن فارانی:
الارضِ مقدس فلسطین ایک بار پھر صہیونی یہودی ساحلی شہر غزہ جہاں رسول پاک ﷺ کے پردادا جناب ہاشم تجارت کے لئے تشریف لائے تھے،انتقال کے بعد وہیں دفن ہوئے جس کے باعث بحیرہ روم کا یہ ہاشم کہلانے لگا۔ آج فلسطین میں غزہ کی اس پٹی میں ملعونِ زمانہ اسرائیلی یہودیوں نے ایک بار پھر تباہی مچا رکھی ہے۔اور عالمی امن کی ٹھیکیدار "اقوامِ متحدہ" کو سانپ سونگھ گیا ہے۔
ابوالانبیا سیدنا ابراہیم علیہ السلام تقریباً چار ہزار سال پہلے عراق سے حران (ترکی) اور حلب (شام) سے ہوتے ہوئے فلسطین تشریف لائے تھے اور یہاں ایک پہاڑی پر قیام کیا۔ پھر وہیں ان کے پوتے سیدنا یعقوب علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے "بیت ہمقدش" تعمیر کیا تھا جو عربی میں بیت المقدس کہلایا اور اس مقدس گھر (مسجد) کے نام سے وہاں آباد ہونے والے شہر کو بھی بیت المقدس کہا جانے لگا۔ اسکا دوسرا نام یروشلم یعنی "شہرِ امن" ("شلم" یا "سلم" بمعنی سلامتی) تھا۔ سیدنا یعقوب (اسرائیل)علیہ السلام کی اولاد بنی اسرائیل کہلائی جو سیدنا یوسف علیہ السلام کی معیت میں مصر جا کرآباد ہوئی۔ ایک مدت بعد مقامی قبطیوں (فرعونیوں) نے انہیں غلام بنا لیاجبکہ تیرھویں صدی ق م میں سیدنا موسیٰ و ہارون علیہ السلام انہیں فرعونیوں کی غلامی سے نکال کر فلسطین کی طرف لائے۔ اس وقت فلسطین میں فلستی قوم آباد تھی جسکے نام پر بعد میں یہ سرزمین فلسطین کہلائی۔ بنی اسرائیل نے فلستیوں کے ساتھ امن و امان سے رہنے کی بجائے جنگجوئی اور خونریزی کی روش اختیار کی۔ 1000 ق م کی لگ بھگ سیدنا داوٴد علیہ السلام کو یہاں بادشاہت ملی جسے انکے فرزند سیدنا سلیمان علیہ السلام نے وسعت دی۔ سیدنا سلیمان علیہ السلام نے بیت المقدس میں ازسرنو اللہ کا گھر تعمیر کیا جو یہود میں " ہیکل سلیمانی" کہلایا۔
 بنی اسرائیل کو یہود ابن یعقوب علیہ السلام کے نام نسبت ہے ،یہ یہودی اپنے اعمال کی وجہ سے بابل کے بخت نصر کے ہاتھوں غلام بنائے گئے تو ایران (فارس) کے نیک دل بادشاہ کوروش کبیر (ذوالقرنین، یونانی نام سائرس) نے 586 ق م میں بابل فتح کر کے یہودیوں کو رہائی دلائی اور انہیں واپس فلسطین آکر دوبارہ ہیکل تعمیر کرنے کا موقع ملا۔ پھر 135ء میں رومی قیصر ہیڈرین نے یہودیوں کو فلسطین سے جلاوطن کر دیا توہیکل سلیمانی کی جگہ مشتری دیوتا (جوپیٹر) کا مندر بنا دیا گیا تھا۔ بعد میں عیسائیوں کا غلبہ ہواتو انہوں نے مشتری دیوتا کا مندر مسمار کر دیا۔ ظہور اسلام کے موقع پریہی وہ مقام تھا جسے صاف کر کے مسلمانوں نے مسجد اقصیٰ تعمیر کی اور جہاں سے رسول کریمﷺ معراج آسمانی کو تشریف لے گئے۔
 بیت المقدس مسلمانوں کا چودہ پندرہ برس قبلہ اوّل رہا حتیٰ کہ 2 ھ میں خانہ کعبہ (مکہ مکرمہ) قبلہ قرار پایا۔ 637 ء/16ھ میں عہدِ فاروقی میں مسلمانوں نے پُر امن طور پر بیت المقدس فتح کر لیا۔ اس دوران پونے دوہزار سال یہود یونہی دربدر رہے۔ عثمانوی عہد خلافت میں تھیوڈور ہرزل کی قیادت میں سودی نظام کیلئے سرگرم یہودیوں کا ایک وفد خلیفہ عبدالحمید ثانی سے ملا اور سلطنت عثمانیہ کے قرضے ادا کرنے کے عوض فلسطین میں ایک یہودی ریاست ہوم لینڈ کی مانگ کی مگر خلیفہ نے صاف جواب دے دیا۔ اس پر انگریزوں نے سازش کے ذریعے شریفِ مکہ حسین بن علی ہاشمی کو اپنے ساتھ گانٹھ لیا۔ غرضیکہ دسمبر 1917ء میں برطانوی فوج بیت المقدس پر قابض ہو گئی اور سلطنت عثمانیہ کے حصے بخرے کر دیے گئے۔ جمعیت ِاقوام قائم ہونے پر فلسطین کا مینڈیٹ غیر قانونی طور پر برطانیہ کو سونپ دیا گیا اور برطانوی وزیرِ خارجہ بالفور نے "اعلان بالفور" کے ذریعے (1917ء ) میں فلسطین میں یہودی وطن کے قیام کا خفیہ معاہدہ کر کے ہربرٹ سیموئل نامی یہودی کو فلسطین کا کمشنر بنا کر بھیج دیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب اس یہودی کمشنر نے فلسطین کے دروازے دنیا بھر کے یہودیوں کے لئے کھول دیے، چناچہ روس، یوکرین، ہنگری، پولینڈ وغیرہ سے یہودی جہازوں میں بھر بھر کر فلسطین کے ساحل پر اْترنے لگے آخر کار یہود و نصاریٰ کی لونڈی اقوامِ متحدہ جو 1945ء میں قائم ہوئی تھی اس نے اکتوبر 1947ء میں تقسیم فلسطین کی قرارداد منظور کر لی۔نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ 1921ء میں فلسطین میں جو یہودی 84ہزار تھے 1947ء میں اُن کی تعد چھ لاکھ سے بڑھ گئی اور انہیں فلسطین کا 55 فیصد رقبہ بخش دیا گیا۔14مئی1948ء کو برطانیہ نے اچانک اپنا مینڈیٹ ختم کرنے کا اعلان کر دیا اور اسی روز یہودیوں نے تل ابیب میں اسرائیل ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا جسے ناجائز ہونے کے باوجود روس اور امریکہ نے فوراً تسلیم کر لیا۔
اسرائیل کے قیام کے بعد سے فلسطینی عوام اپنے وطن کی بازیابی کیلئے مسلسل جد وجہد میں مصروف ہیں۔ دوسری جانب اردن اور مصر کے صدر انورسادات بھی اسرائیل کا ناجائز وجود تسلیم کرنے پر مجبور کر دیئے گئے۔1993ء میں تنظیم آزادیء فلسطین کے سربراہ یاسرعرفات کے ساتھ ہونے والے اوسلو معاہدے کے مطابق غرب اردن اور غزہ کی پٹی میں فلسطینی ریاست قائم ہونی تھی جو تاحال قائم نہیں ہو سکی تاہم 1996ء میں یاسر عرفات کے زیرِقیادت غرب اردن اور غزہ کی پٹی میں فلسطین کیلئے بلدیاتی اداروں کے اختیارات تسلیم کر لئے گئے۔ اس کے بعد جب سے فلسطینی تنظیم حماس غزہ کی پٹی پر آباد ہے اسرئیلی زمینی و فضائی افواج کے ہاتھوں فلسطینی کیمیوں میں قتلِ عام روز کا معمول بن چکا ہے۔


”غزوہ بدر“یوم الفرقان



”غزوہ بدر“یوم الفرقان
اسلام کا مکّی دور مسلما نوں کے لئے انتہائی ابتلا اور مشکلات کا دور تھا،ظلم کی ہر شکل سے فرزندانِ اسلام کو واسطہ پڑا، ذہنی و جسمانی اذیّت کے اندوہناک باب رقم ہوئے

ڈاکٹر ضیاء الحبیب صابری:
اسلام کا مکّی دور مسلما نوں کے لئے انتہائی ابتلا اور مشکلات کا دور تھا،ظلم کی ہر شکل سے فرزندانِ اسلام کو واسطہ پڑا، ذہنی و جسمانی اذیّت کے اندوہناک باب رقم ہوئے ، اور اللہ کی وحدانیت کا اقرارنا قابلِ در گزر جرم بن چکا تھا۔ بیت اللہ جو صنم کدہ میں بدل چکا تھا اسکا ذرہ ذرہ عباد الرحمن کی پُرعزم جبینوں کو چومنے کے لئے صدیوں سے ترس رہا تھا۔حرمِ کعبہ کے متولّیوں کے خلاف اعلانِ مقاطعہ اور بنی ہاشم کا شعبِ ابی طالب میں برسوں تک بے گناہی کی سزا کے طور پر فلاکت و عسرت کی زندگی بسر کرنا معمول بن گیا تھا۔ اللہ رب العزت کے محبوب رسول کریم پر حالتِ نماز میں اونٹ کا غلیظ اوجھ پھینکنا، راستوں میں کانٹے بچھانا ،کوڑا پھینکنا، آپ کو دیکھ کر یاوہ گوئی کرنا،اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مسلسل نشانہء ستم بنائے رکھنا کفار مکہ کا مسلسل وطیرہ بن گیا تھا۔
ظلم کا دور جاری تھا کہ مشیتِ الٰہی کے تحت مسلمان ترک وطن پر مامورہوئے، اہلِ مکّہ یہ بھی برداشت نہ کر سکے اور انہوں نے مسلمانوں کا تعاقب جاری رکھا۔ مشرکینِ مکّہ نے مسلمانوں کو پناہ دینے سے روکنے کی بھرپور کوشش کی، حتّٰی کہ جب صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ آخری ہجرت کر کے مدینہ منوّرہ آگئے تو کفّار کو یہ بھی ناگوار گزرا، چنانچہ آئے دن وہ مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیوں میں لگے رہتے۔ ہجرت کے بعد مدینہ منوّرہ کے با اثر لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف اکسانا اور انہیں پناہ دینے سے روکنے کی کوشش ان کا اولین مقصد بن گیا۔ چنانچہ اس منظر کے پیش نظرآنحضور نے حفظ ما تقدم کے طور پر مدینہ منوّرہ کے مضافات میں وقتاً فوقتاً گشتی وفود بھیجنا شروع کر دیے تا کہ کفارِ مکّہ کی نقل و حرکت پر گہری نظر رکھی جا سکے۔ چنانچہ اسی دوران ایک دفعہ کی مڈ بھیڑ میں عمرو بن فہرالحضرمی مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل ہو گیا۔
انہی دنوں ابو سفیان بن حرب اموی کو شام سے واپسی پر راستے میں کسی نے خبر دی کہ مسلمان تمہارے قافلے کو لوٹنا چاہتے ہیں، اس اطلاع کے پاتے ہی اپنے ایک رفیقِ سفر ضمضم غفاری کو مکہ روانہ کردیا کہ وہ جاکر اس صورت حال سے سردارانِ مکہ کو باخبر کردے۔اس خبر کے ساتھ ضمضم غفاری کے مکہ پہنچتے ہی قریش مکہ مشتعل ہوگئے ،اور مسلمانوں کے خلاف کاروائی کرنے لگے پُرزور کوششیں شروع کر دیں،ادھرابوسفیان صحیح سلامت قافلہ لے کر مکہ مکرمہ آگیا تو بہت سے اہلِ مکہ نے کہا کہ اب لشکر کشی کی ضرورت نہیں کیو نکہ قافلہ با خیریت آگیا ہے ،لیکن مدینہ منورہ میں اسلام کی پذیرائی اور مسلمانوں کی ترقی سے ابو جہل بہت پریشان تھا ،اس کے خیال میں مسلمانوں کی سرکوبی کے لئے ایک اچھا موقع تھا لہٰذا اس نے سردارانِ قریش پر زور دیا کہ اب مدینہ کی طرف پیش قدمی ضرور کرنی چاہیے ، لیکن امیّہ بن خلف،عاص بن ہشام وغیرہ نے زیادہ پس و پیش دکھایا تو ابو لہب نے عاص بن ہشام پر (جو ابو لہب کا مقروض تھا ) قر ض کی وصولی کے لیے دباوٴ ڈالا یہاں تک کہ اس کو جنگ کے لیے آمادہ کر لیا۔ ابوجہل اپنے مکروہ عزائم پر بضد رہا اور یوں وہ جوانوں کا ایک لشکر لے کر مدینہ منورہ سے 98میل کے فاصلے بدر کے مقام پر آن پہنچا۔
ادھر مدینہ منورہ میں پیارے نبی حضرت محمد کو جب ان حالات کی خبر ملی تو آپ نے صحابہ کرام کو جمع فرمایا اور اس نئی صورتِ حال سے آگاہ کیا، چنانچہ رمضان المبارک کی آٹھویں تاریخ کو تین سو تیرہ جاں نثاروں کی جماعت کے ساتھ مدینہ منورہ سے مشرکین کاراستہ روکنے کیلئے روانہ ہوئے، مدینہ منورہ میں مشہور صحابی حضرت عمرو بن امِ مکتوم کو نائب مقرر فرمایا ،پھر مقامِ روحا پر پہنچ کر حضرت ابو لبابہ بن المنذر کو نیابت سپرد فرما کر واپس کردیا، انتہائی بے سرو ساما نی کے عالم میں یہ قدسی صفات مردانِ حق آج پرچمِ حق بلند کرکے باطل کو سر نگوں کرنے پورے ایمان کے ساتھ سوئے منزل جارہے ہیں ،اس سارے لشکر میں صرف دو سپاہیوں(حضرت مقداد بن عمرو اور حضرت مرثد بن ابی المرثد غنوی ) کے پاس ایک ایک گھوڑا ہے، جبکہ چند دیگر صحابہ کے پاس سواری کے چند اْونٹ تھے،اس بے سرو سامانی کا اندازہ اس امر سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ خود قائدِ لشکر علیہ وآلہ الصلوٰة والسلام کے ساتھ مزید دو حضرات (حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت لبابہ) ہم رکاب ہیں، اور آپ اپنے دونوں ہمسفروں کے ساتھ سواری میں امتیازی حیثیت کے بجائے باقاعدہ باری باری سواری فرماتے ہیں۔ آپ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ منزل بمنزل جب بدر پہنچے تو قریش پہلے ہی یہاں آچکے تھے اور وہ اپنی پسند کے مطابق موزوں جگہ پر خیمے گاڑھ چکے تھے۔ مسلمانوں کے لیئے سنگلاخ اور ریتلی زمین کے سوا کوئی جگہ نہ تھی جبکہ پانی کا چشمہ بھی قریش مکہ کے قبضہ میں تھا۔ رسول پاک نے اپنے سپاہیوں کو اس موقع پر جو ہدایات ارشاد فرمائیں وہ آپ کے اعلیٰ ترین سپہ سالار ہونے کی بہترین مثال ہیں۔
آپ نے قریش کے غلام سے دریافت فرمایا کہ قریش میں سے کون کون ہیں، تو بتایا گیا کہ ابو جہل کے ساتھ عتبہ و شیبہ، امیّہ بن خلف کے علاوہ سہیل بن عمرو، عمرو بن عبدود، منبہ و نبیہ، ابوالبختری بن ہشام نوفل بن خویلد، حارث بن عامر ، نضر بن الحارث اور حکیم بن حزام بھی شامل ہیں۔
آپ نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ مکہ نے آج اپنے تمام جگر گوشے تمہاری جانب پھینک دیے ہیں۔ آپ نے جو ہدایات ارشاد فرمائیں ان میں فرمایا صف بندی کرتے وقت پشت سورج کی طرف رکھنا، بلااجازت حملے کے لیے آگے مت بڑھنا۔ خواہ مخواہ عورتوں، بچوں، غلاموں، نوکروں اور لڑائی میں حصہ نہ لینے والوں پر ہتھیار مت اٹھانااور زخمیوں کو اذیت نہ دینا۔ آپ نے چھری سے نشاندہی کر دی کہ کل ابو جہل اس جگہ قتل ہوگا، اس کے علاوہ عتبہ و شیبہ کے مقتل کا نشان لگایا۔
معرکہ پڑنے سے پہلے رات کی نماز کے بعد آپ نے اپنے اللہ سے دعا کی
 ترجمہ:اے اللہ! قریش کا یہ جتھا جو بڑے تکبر و غرور کے ساتھ مقابلہ کے لیے آیا ہے، تیری مخالفت کرتا ہے اور تیرے رسول کی تکذیب کرتا ہے۔ اے اللہ! اپنی فتح و نصرت عطا فرما جس کا تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے۔ اسی طرح آپ نے یہ دعا بھی فرمائی کہ اے اللہ! اپنے ان مٹھی بھر بندوں کی حفاظت فرما ورنہ روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔چنانچہ غیب سے مسلمانوں کی فتح و نصرت کے اسباب جمع ہونا شروع ہو گئے۔
نصرتِ الٰہی نے ایک اور رنگ دکھایا کہ خشک ،سنگلاخ پہاڑوں کے وسط میں وادیِ بدر میں بارش شروع ہو گئی، جس سے قریشِ مکہ کی جانب مٹی والی زمین دَلدل اور کیچڑ میں بدل گئی اور مسلمانوں کی جانب ریتلی زمین بارش سے جم گئی،اور نشیب میں پینے کا پانی جمع ہوگیا۔ معرکہ حق و باطل شروع ہونے پر آنحضرت نے مٹی کی مٹھی لشکرِ کفار پر پھینکی، اس مٹی کے پھینکنے میں کیا رعب و جلال اور ہیبت تھی کہ خود ربِ دو جہاں نے فرمایا
ترجمہ:”اے محبوب!آپ نے نہیں پھینکی جو آپ نے پھینکی بلکہ اللہ نے پھینکی “بس پھر کیا تھا، لشکرِ کفار میں بھگدڑ مچ گئی، سارا غرور خاک میں مل گیا، باطل کے سارے گھمنڈ ٹوٹ گئے ،کفار سرداروں سمیت 70جہنمیوں کی لاشیں اور 70 قیدی پیچھے چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہو گئے، اور دنیا پر ثابت کردیا کہ فتح و کامرانی کا راز سامان و وسائل کی 
فراوانی نہیں بلکہ جذبہ اور ایمان سب سے بڑی قوت ہے۔


فتح مکہ کی محبت آمیز اور پرامن خوشبوئیں


فتح مکہ کی محبت آمیز اور پرامن خوشبوئیں
ذراتصورمیں لائیےوہ دن جب اللہ کےرسولﷺ حزورہ کے مقام پر کھڑے ہو کر مکہ کو مخاطب فرما رہے تھے کہ اے مکہ تو دنیا بھر میں اللہ کے ہاں سب سے بڑھ کر محبوب اور برکت والی زمین ہےاگر مجھے یہاں کےلوگ نکلنےپرمجبور نہ کرتے

مولانا امیر حمزہ:
رمضان المبارک کی 20 تاریخ کو مکہ فتح ہوا، حضور نبی کریمﷺ فاتح بن کر اپنے آبائی شہر میں داخل ہوئے مگر آٹھ سال قبل کا تذکرہ بے حد ضروری ہے جب اللہ کے رسولﷺ اسی شہر سے نکال دیئے گئے تھے۔ ذرا تصور میں لائیے وہ دن جب اللہ کے رسولﷺ حزورہ کے مقام پر کھڑے ہو کر مکہ کو مخاطب فرما رہے تھے کہ اے مکہ تو دنیا بھر میں اللہ کے ہاں سب سے بڑھ کر محبوب اور برکت والی زمین ہے اگر مجھے یہاں کے لوگ نکلنے پر مجبور نہ کرتے تو میں کبھی بھی تجھے چھوڑ کر نہ جاتا۔ (مستند احمد)
اللہ تعالی نے اپنے محبوب حضرت محمدﷺ کے دل کی یہ کیفیت دیکھی تو حضرت جبرئیل کوبھیجا جو مولاکریم کا پیغام لائے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ فرمایا!
(میرے رسولﷺ) وہ اللہ جس نے آپﷺ پر قرآن نازل فرمایا وہ آپ کو ایسا یقین دلاتا ہے جو شک و شبے سے بہت بالا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ اللہ ہر صورت آپ کو یہیں واپس لائے گا جہاں سے آپ کو نکالا جا رہا ہے۔ (القرآن)
قارئین کرام! اس ضمن میں تورات کی یہ پیشگوئی بھی ہمارے سامنے رہنی چاہئے کہ خدا فاران پر جلوہ گر ہو گا اور آخری نجات دہندہ جسے اس کے شہر سے نکال دیا جائے گا وہ واپس دس ہزار قدوسیوں کے ہمراہ اپنا علاقہ فتح کرے گا۔
جی ہاں!رمضان المبارک کی سترہ تاریخ کو اللہ کے رسولﷺ مکہ میں داخل ہوئے۔ اسی شہر میں داخل ہوئے جہاں ستایا گیا تھا، راستے میں کانٹے بکھیرے گئے تھے اور پتھر مارے گئے تھے۔ بیت اللہ میں سجدے میں گئے ہوئے حضور گرامی کی کمر مبارک پر اوجڑی رکھی گئی تھی۔ گلے میں چادر ڈال کر عقبہ بن ابی معیط نے ”گل گھوٹو“ دینے کی کوشش کی تھی۔ اس شہر سے حضورﷺ کی لخت جگر حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اس حال میں نکلنے دیا گیا تھا کہ ان کی سواری کو بدکایا گیا۔ وہ گریں اور آنے والے نومولود سے محروم ہو گئیں۔ صحابہ اور صحابیات کو ستایا گیا۔ پھر ہجرت کے بعد بھی مدینہ منورہ پر متواتر حملوں کے پروگرام بنائے گئے۔ معرکے کئے گئے کبھی احزاب کی شکل میں گھیراؤ اور کبھی احد میں آ کر پڑاؤ۔ ایسے شہر کے ساتھ فاتحین وہی کچھ کرتے ہیں جو انسانی تاریخ کا حصہ ہے۔ کھوپڑیوں کے مینار بنتے ہیں۔ باپ، بھائی اور اقارب کا کوئی خیال اور لحاظ نہیں ہوتا۔ عورتیں بچے بے دریغ مارے جاتے ہیں۔ شہر برباد اور اس کی گلیاں خون سے رنگین ہوتی تھیں۔ مگر فاتح مکہ حضرت محمدﷺ کی ذات کریم تھی جنہوں نے تاریخ انسانی کا رخ بدل دیا۔ تاریخ کو اک نیا انداز دیا۔ ایسا انداز جس نے فتح کا مفہوم اور معنی ہی بدل دیئے۔ اس کو اک نئی پہچان دی، امن و سلامتی اور عفوودرگزر کی پہچان۔ حضورﷺ نے طاقت و قوت حاصل ہونے کے باوجود مکہ میں امن سلامتی کا پیغام دیا۔ آپﷺ نے مکہ جانے کا فیصلہ اس وقت فرمایا جب مکہ والوں نے حدیبیہ میں کیا ہوا صلح کا پیمان توڑا۔ انہوں نے اللہ کے رسولﷺ کے حلیف بنو خزاعہ پر ظلم کرنے والے قبیلے بنوبکر کا ساتھ دیا تھا۔ اللہ کے رسولﷺ پابند تھے کہ مظلوم قبیلے کے سردار کی فریاد پر اقدام کرتے چنانچہ مدینہ میں ان کا سردار آیا۔ فریاد رسی کا طلب گار ہوا اور پھر مکہ کی جانب اللہ کے رسولﷺ کا اقدام ہونے لگا۔
دس ہزار صحابہ کا عظیم لشکر معرکہ پر روانہ ہوا تو حجفہ کے مقام پر حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے خاندان سمیت آن ملے۔ اسلام قبول کیا اور دس ہزار قدوسیوں کے ہمرکاب بن گئے۔ ابوسفیان کو یقین تھا کہ اس نے جو عہد شکنی کی ہے اب حضورﷺ کا لشکر مکہ کا رخ ضرور کرے گا چنانچہ اس نے مدینہ سے آنے والے راستے پر نگا ہ رکھنے کیلئے حکیم بن حزام اور دوسرے بدیلنامی شخص کو بھیجا۔ پھر ابوسفیان خود بھی ان کے ساتھ چل دیا کیونکہ خبر یہی تھی کہ حضورﷺ آ رہے ہیں۔ اللہ اللہ!
کل جو بے بس بستی سے نکالے گئے تھے وہ اب قوت و سطوت کے ساتھ آ رہے ہیں۔ ادھر حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی نکلے ہوئے تھے کہ قریش کے لوگوں کو سمجھائیں کہ مقابلہ کرنے کی سوچو گے تو مارے جاؤ گے۔ رات کے وقت جب ہر سو وادیوں اور چوٹیوں پر آگ کے الاؤ نظر آئے تو ابوسفیان گھبرا کر پوچھنے لگا کہ محمدﷺ کریم کا اتنا بڑا لشکر ہے؟ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا خیر اسی میں ہے میرے ساتھ آ جاؤ تجھے اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں لے جاتا ہوں۔ چنانچہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی سواری پر ابوسفیان کو بٹھایا اور حضورﷺ کے خیمے کی جانب چل دیئے۔
راستے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ملے انہوں نے پہچان لیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابوسفیان کو قتل کرنے کی بات کی اور تلوار لے کر لپکے۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سواری کو ایڑ لگائی اور حضور کے سامنے پہنچ کر امان کی درخواست کی۔ پیچھے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی تلوار لے کر پہنچ گئے لیکن حضورﷺ رحمت ا للعالمین کے در پر دشمن بھی آ گیا تو محفوظ اور مامون ہو گیا۔ ابوسفیان نے کلمہ نہ پڑھا۔ حضورﷺ نے مہلت دے دی۔ صبح ہوئی حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موجودگی میں تھوڑی سی ہچکچاہٹ کے بعد ابو سفیان نے اسلام قبول کر لیا۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سفارش پر حضورﷺ نے یہ اعزاز بھی دے دیا کہ جو ابوسفیان کے گھر داخل ہو جائے اسے بھی امان ہے۔ اللہ کے رسول نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ابوسفیان کو تنگ پہاڑی راستے کی بلندی پر لے جا کر کھڑ ا کرنے کیلئے کہا تاکہ قریش اس لشکر کی قوت کا اندازہ کر لیں۔ مقابلہ کرکے مارے نہ جائیں۔ یوں مکہ میں لشکر داخل ہو تو امن کے ساتھ داخل ہو۔ ابوسفیان نے جب لشکر کو درے میں سے گزرتا دیکھا اور آخر پر مہاجرین وانصار کے جانثاروں کے درمیان حضور عالی شان اور ذی شان کا باوقار رستہ دیکھا تو پکار اٹھا عباس! تیرے بھتیجے کی بادشاہت تو بڑی عظیم ہے۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ جھٹ سے بولے یہ بادشاہت نہیں نبوت ہے۔ ابوسفیان کو بتلا دیا کہ بادشاہت ہوتی تو جبروقہر کا طوفان ہوتا۔ یہ تو رحمت دوعالمﷺ کی پررحمت نبوت ہے۔ اس کا رنگ انسانیت کے ساتھ انتہائی محبت آمیز ہے۔ مکے کے لوگ ہتھیار لے کر جمع تھے۔ وہ ابوسفیان ہی کا انتظار کر رہے تھے۔ ابوسفیان نے خطاب کیا اور کہا لوگو! جو میں دیکھ کر آیا ہوں۔ اللہ کی قسم! تم مقابلہ نہیں کر سکتے۔ گھروں کو لوٹ جاؤ۔ تمہارے لئے امن کا پروانہ لے آیا ہوں۔ حضرت محمدﷺ کریم کی رحمت کا پروانہ یہ ہے کہ جو میرے گھر میں داخل ہو۔ اپنے گھر میں رہے۔ بیت اللہ میں رہے اسے امن ہے۔ ابو سفیان کے جملے کا آخری لفظ ختم ہوا اور لوگ گھروں کو دوڑ پڑے۔
اللہ اللہ! شاہ عرب کا پررحمت نبوی لشکر آ گیا۔ اللہ کے رسولﷺ سرف اور تنعیم کے راستوں سے گزرتے ہوئے ”جبل حجون“ کے پاس تشریف لائے۔ یہاں سے تھوڑے فاصلے پر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی قبر مبارک ہے۔ میرے حضورﷺ نے یہیں خیمہ لگا لیا۔ اس کے بعد کعبہ میں تشریف لے گئے۔ وہاں سب کے لئے معافی کا اعلان کر دیا۔ بتوں کو توڑ دیا حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کعبہ کی چھت پر چڑھے۔ اللہ اکبر کا آوازہ گونجا ”لا“ پر عمل ہو چکا تھا۔ اب ”الا اللہ“ کا شاندار نظارہ تھا اور اللہ کی توحید کا نقارہ تھا۔ حضورﷺ نے اپنی اماں اور بابا جان کا مکان جہاں شب و روز گزرے وہ بھی واپس نہ لیا۔ بس خیمے میں گزارہ کر لیا۔ اور واپس انصار کے ساتھ مدینہ منورہ میں تشریف لے آئے۔ انصار کے خدشے کو دور فرما دیا کہ میں مکہ میں رہوں گا۔ یہ تھی وہ فتح مکہ جس نے وفاؤں کے پاسبان حضرت محمدﷺ کے ہاتھوں ایک نئی تاریخ رقم فرما دی۔ دور جدید کے فاتحین ذرا اپنے انداز دیکھو۔ میرے حضورﷺ کے محبت آمیز پھولوں کی مہک کچھ نہ کچھ کام کر جائے اور یہ دنیا امن کا گہوارہ بن جائے۔

Sunday, July 20, 2014

سلطنت عثمانیہ کے آخری بااختیار خلیفہ عبد الحمید ثانی



سلطنت عثمانیہ کے آخری بااختیار خلیفہ عبد الحمید ثانی نے 1876ء میں 31 اگست کو تخت سنبھالا اور اس کے ساتھ ہی اصلاحات اور جدیدیت کے ایک شاندار دور کا آغاز ہوا جس کے اختتام کے ساتھ ہی عثمانیوں کے اثرورسوخ کا بھی خاتمہ ہوا۔
سلطان عبد الحمید کے عہد کا سب سے بڑا کارنامہ استنبول سے مدینہ منورہ تک ریل کی پٹڑی بچھانا تھا جسے 'حجاز ریلوے کا نام دیا گیا تھا۔ اس سے دارالسلطنت اور دیگر شہروں سے حج بیت اللہ کے لیے سفر میں زبردست آسانیاں پیدا ہوئیں۔
یہودیوں کی اس بدنام زمانہ پیشکش کو ٹھکرانے والے بھی سلطان عبد الحمید ہی تھے کہ اگر فلسطین یہودیوں کو دے دیا جائے تو وہ سلطنت عثمانیہ کا تمام قرضہ اتار دیں گے۔ اس موقع پر سلطان کی جانب سے ادا کیے گئے کلمات آج بھی تاریخ میں محفوظ ہیں کہ "میں سرزمین فلسطین کا ایک انچ بھی یہودیوں کو نہیں دوں گا کیونکہ فلسطین میرا نہیں بلکہ امت کا ہے اور امت نے اس سرزمین کی حفاظت کے لیے اپنا خون بہایا ہے"
1909ء میں اس حکومت کا خاتمہ کر دیا اور یوں عثمانیوں کا اثرورسوخ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا یہاں تک کہ 1924ء میں خلافت کا بھی خاتمہ ہوگیا۔ !