استغفار کی فضیلت:
القرآن : وَما كانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُم وَأَنتَ فيهِم ۚ وَما كانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُم وَهُم يَستَغفِرونَ {8:33}
ترجمہ : اور الله ایسا نہ تھا کہ جب تک تم ان میں سے تھے انہیں عذاب دیتا۔ اور ایسا نہ تھا کہ وہ بخششیں مانگیں اور انہیں عذاب دے.
مشرکین پر عذاب کیوں نہیں آیا ؟
سنت اللہ یہ ہے کہ جب کسی قوم پر تکذیب انبیاء کی وجہ سے عذاب نازل کرتے ہیں تو اپنے پیغمبر کو ان سے علیحدہ کر لیتے ہیں۔ خدا نے جب حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو مکہ سے علیحدہ کر لیا تب مکہ والے بدر کے عذاب میں پکڑے گئے۔
نزول عذاب سے دو چیزیں مانع ہیں ایک ان کے درمیان پیغمبر کا موجود رہنا۔ دوسرے استغفار۔ یعنی مکہ میں حضرت کے قدم سےعذاب اٹک رہا تھا۔ اب ان پر عذاب آیا۔ اسی طرح جب تک گنہگار نادم رہے اور توبہ کرتا رہے تو پکڑا نہیں جاتا اگرچہ بڑے سے بڑا گناہ ہو۔ حضرت نے فرمایا کہ گنہگاروں کی پناہ دو چیزیں ہیں۔ ایک میرا وجود اور دوسرے استغفار کذا فی الموضح۔ (تنبیہ) { وَمَا کَانَ اللہُ لَیُعَذِّبَھُمْ } کے جو معنی مترجم محقق قدس اللہ روحہٗ نے کئے بعض مفسرین کے موافق ہیں لیکن اکثر کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ مشرکین جس قسم کا خارق عادت عذاب طلب کر رہے تھے۔ جو قوم کا دفعۃً استیصال کر دے۔ ان پر ایسا عذاب بھیجنے سے دو چیزیں مانع ہیں ایک حضور ﷺ کا وجود باوجود کہ اس کی برکت سے اس امت پر خواہ "امۃ دعوۃ" ہی کیوں نہ ہو ایسا خارق عادت مستاصل عذاب نہیں آتا۔ یوں کسی وقت افراد دوآحاد پر آ جائے وہ اس کے منافی نہیں۔ دوسرے استغفار کرنے والوں کی موجودگی خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم جیسا کہ منقول ہے کہ مشرکین مکہ بھی تلبیہ و طواف وغیرہ میں "غفرانک ، غفرانک" کہا کرتے تھے۔ باقی غیر خارق معمولی عذاب (مثلاً قحط یا وبا یا قتل کثیر وغیرہ) اس کا نزول پیغمبر یا بعض مستغفرین کی موجودگی میں بھی ممکن ہے آخر جب وہ لوگ شرارتیں کریں گے تو خدا کی طرف سے تنبیہ کیوں نہ کی جائے گی۔ آگے اسی کو بیان فرمایا ہے۔
الحدیث : نازل کی ہیں الله نے دو امان میری امّت کے لئے : "جب تک (اے نبی) آپ ان میں موجود ہیں الله ان کو عذاب میں مبتلا نہ کرے گا اور جب تک وہ اپنے گناہوں پر استغفار کرتے رہیں گے تب بھی الله انھیں عذاب میں مبتلا نہ کرے گا".(سورة الأنفال آية 33) سو جب میں گزر جاؤں گا تو قیامت تک کے لئے عذاب الہی سے امن کے واسطے تمہارے اندر استغفار (بخشش مانگنے کا طریقہ و تعلیم) چھوڑ جاؤں گا.[جامع الترمذي » كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ » بَاب وَمِنْ سُورَةِ النِّسَاءِ ... رقم الحديث: 3026]
القرآن : وَما كانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُم وَأَنتَ فيهِم ۚ وَما كانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُم وَهُم يَستَغفِرونَ {8:33}
ترجمہ : اور الله ایسا نہ تھا کہ جب تک تم ان میں سے تھے انہیں عذاب دیتا۔ اور ایسا نہ تھا کہ وہ بخششیں مانگیں اور انہیں عذاب دے.
مشرکین پر عذاب کیوں نہیں آیا ؟
سنت اللہ یہ ہے کہ جب کسی قوم پر تکذیب انبیاء کی وجہ سے عذاب نازل کرتے ہیں تو اپنے پیغمبر کو ان سے علیحدہ کر لیتے ہیں۔ خدا نے جب حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو مکہ سے علیحدہ کر لیا تب مکہ والے بدر کے عذاب میں پکڑے گئے۔
نزول عذاب سے دو چیزیں مانع ہیں ایک ان کے درمیان پیغمبر کا موجود رہنا۔ دوسرے استغفار۔ یعنی مکہ میں حضرت کے قدم سےعذاب اٹک رہا تھا۔ اب ان پر عذاب آیا۔ اسی طرح جب تک گنہگار نادم رہے اور توبہ کرتا رہے تو پکڑا نہیں جاتا اگرچہ بڑے سے بڑا گناہ ہو۔ حضرت نے فرمایا کہ گنہگاروں کی پناہ دو چیزیں ہیں۔ ایک میرا وجود اور دوسرے استغفار کذا فی الموضح۔ (تنبیہ) { وَمَا کَانَ اللہُ لَیُعَذِّبَھُمْ } کے جو معنی مترجم محقق قدس اللہ روحہٗ نے کئے بعض مفسرین کے موافق ہیں لیکن اکثر کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ مشرکین جس قسم کا خارق عادت عذاب طلب کر رہے تھے۔ جو قوم کا دفعۃً استیصال کر دے۔ ان پر ایسا عذاب بھیجنے سے دو چیزیں مانع ہیں ایک حضور ﷺ کا وجود باوجود کہ اس کی برکت سے اس امت پر خواہ "امۃ دعوۃ" ہی کیوں نہ ہو ایسا خارق عادت مستاصل عذاب نہیں آتا۔ یوں کسی وقت افراد دوآحاد پر آ جائے وہ اس کے منافی نہیں۔ دوسرے استغفار کرنے والوں کی موجودگی خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم جیسا کہ منقول ہے کہ مشرکین مکہ بھی تلبیہ و طواف وغیرہ میں "غفرانک ، غفرانک" کہا کرتے تھے۔ باقی غیر خارق معمولی عذاب (مثلاً قحط یا وبا یا قتل کثیر وغیرہ) اس کا نزول پیغمبر یا بعض مستغفرین کی موجودگی میں بھی ممکن ہے آخر جب وہ لوگ شرارتیں کریں گے تو خدا کی طرف سے تنبیہ کیوں نہ کی جائے گی۔ آگے اسی کو بیان فرمایا ہے۔
الحدیث : نازل کی ہیں الله نے دو امان میری امّت کے لئے : "جب تک (اے نبی) آپ ان میں موجود ہیں الله ان کو عذاب میں مبتلا نہ کرے گا اور جب تک وہ اپنے گناہوں پر استغفار کرتے رہیں گے تب بھی الله انھیں عذاب میں مبتلا نہ کرے گا".(سورة الأنفال آية 33) سو جب میں گزر جاؤں گا تو قیامت تک کے لئے عذاب الہی سے امن کے واسطے تمہارے اندر استغفار (بخشش مانگنے کا طریقہ و تعلیم) چھوڑ جاؤں گا.[جامع الترمذي » كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ » بَاب وَمِنْ سُورَةِ النِّسَاءِ ... رقم الحديث: 3026]
القرآن : وَيٰقَومِ استَغفِروا رَبَّكُم ثُمَّ توبوا إِلَيهِ يُرسِلِ السَّماءَ عَلَيكُم مِدرارًا وَيَزِدكُم قُوَّةً إِلىٰ قُوَّتِكُم وَلا تَتَوَلَّوا مُجرِمينَ {11:52}
ترجمہ : اور اے قوم! اپنے پروردگار سے بخشش مانگو پھر اس کے آگے توبہ کرو۔ وہ تم پر آسمان سے موسلادھار مینہ برسائے گا اور تمہاری طاقت پر طاقت بڑھائے گا اور (دیکھو) گنہگار بن کر روگردانی نہ کرو.
تشریح : یعنی موقع بہ موقع خوب بارشیں دے گا۔ وہ قوم چونکہ کھیتی ، باغ لگانے سے بڑی دلچسپی رکھتی تھی اس لئے ایمان لانے کے ظاہری فوائد و برکات وہ بیان کئے جو ان کے حق میں خصوصی طور پر موجب ترغیب ہوں۔ لکھتے ہیں کہ وہ لوگ تین سال سے خشک سالی اور امساک باراں کی مصیبت میں گرفتار تھے۔ ہودؑ نے وعدہ کیا کہ ایمان لا کر خدا کی طرف رجوع ہو گے تو یہ مصیبت دور ہو جائے گی۔
یعنی مالی اور بدنی قوت بڑھائے گا اولاد میں برکت دے گا۔ خوشحالی میں ترقی ہو گی ، اور مادی قوت کے ساتھ روحانی و ایمانی قوت کا اضافہ کر دیا جائے گا۔ بشرطیکہ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع ہو کر اس کی اطاعت سے مجرموں کی طرح روگردانی نہ کرو۔
الحدیث : جس نے استغفار کی کثرت کی (اور دوسری روایت میں ہے : جن نے لازم (پابند) کیا بخشش مانگتے رہنا) ، الله تعالیٰ اس کے لئے ہر مشکل آسان فرمادیں گے اور ہر تنگی سے نجات کا راستہ فراہم فرمائیں گے اور اس کو ایسی ایسی جگہ سے روزی پہنچے گی جہاں اس کا وہم و گمان تک نہ جاۓ گا.[السنن الكبرى للنسائي » كِتَابُ الزِّينَةِ » الإِكْثَارُ مِنَ الاسْتِغْفَارِ ... رقم الحديث: 9853]
ترجمہ : اور اے قوم! اپنے پروردگار سے بخشش مانگو پھر اس کے آگے توبہ کرو۔ وہ تم پر آسمان سے موسلادھار مینہ برسائے گا اور تمہاری طاقت پر طاقت بڑھائے گا اور (دیکھو) گنہگار بن کر روگردانی نہ کرو.
تشریح : یعنی موقع بہ موقع خوب بارشیں دے گا۔ وہ قوم چونکہ کھیتی ، باغ لگانے سے بڑی دلچسپی رکھتی تھی اس لئے ایمان لانے کے ظاہری فوائد و برکات وہ بیان کئے جو ان کے حق میں خصوصی طور پر موجب ترغیب ہوں۔ لکھتے ہیں کہ وہ لوگ تین سال سے خشک سالی اور امساک باراں کی مصیبت میں گرفتار تھے۔ ہودؑ نے وعدہ کیا کہ ایمان لا کر خدا کی طرف رجوع ہو گے تو یہ مصیبت دور ہو جائے گی۔
یعنی مالی اور بدنی قوت بڑھائے گا اولاد میں برکت دے گا۔ خوشحالی میں ترقی ہو گی ، اور مادی قوت کے ساتھ روحانی و ایمانی قوت کا اضافہ کر دیا جائے گا۔ بشرطیکہ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع ہو کر اس کی اطاعت سے مجرموں کی طرح روگردانی نہ کرو۔
الحدیث : جس نے استغفار کی کثرت کی (اور دوسری روایت میں ہے : جن نے لازم (پابند) کیا بخشش مانگتے رہنا) ، الله تعالیٰ اس کے لئے ہر مشکل آسان فرمادیں گے اور ہر تنگی سے نجات کا راستہ فراہم فرمائیں گے اور اس کو ایسی ایسی جگہ سے روزی پہنچے گی جہاں اس کا وہم و گمان تک نہ جاۓ گا.[السنن الكبرى للنسائي » كِتَابُ الزِّينَةِ » الإِكْثَارُ مِنَ الاسْتِغْفَارِ ... رقم الحديث: 9853]
القرآن : فَقُلتُ استَغفِروا رَبَّكُم إِنَّهُ كانَ غَفّارًا {71:10} يُرسِلِ السَّماءَ عَلَيكُم مِدرارًا {71:11} وَيُمدِدكُم بِأَموٰلٍ وَبَنينَ وَيَجعَل لَكُم جَنّٰتٍ وَيَجعَل لَكُم أَنهٰرًا {71:12}
ترجمہ : اور کہا کہ اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے. وہ تم پر آسمان سے لگاتار مینہ برسائے گا. اور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہیں باغ عطا کرے گا اور ان میں تمہارے لئے نہریں بہا دے گا.
اللہ سے اپنے گناہ بخشواؤ:
یعنی باوجود سینکڑوں برس سمجھانےکے اب بھی اگر میری بات مان کر اپنے مالک کی طرف جھکو گے اور اس سے اپنی خطائیں معاف کراؤ گے تو وہ بڑا بخشنے والا ہے، پچھلے سب قصور یک قلم معاف کر دیگا۔
اللہ کی نعمتیں برسیں گی:
یعنی ایمان و استغفار کی برکت سے قحط و خشک سالی (جس میں وہ برسوں سے مبتلا تھے) دور ہو جائیگی اور اللہ تعالیٰ دھواں دھار برسنے والا بادل بھیج دیگا جس سے کھیت اور باغ خوب سیراب ہونگے۔ غلّے، پھل، میوہ کی افراط ہو گی، مواشی وغیرہ فربہ ہو جائیں گے، دودھ گھی بڑھ جائے گا اور عورتیں جو کفر و معصیت کی شامت سے بانجھ ہو رہی ہیں اولاد ذکور جننے لگیں گی۔ غرض آخرت کے ساتھ دنیا کے عیش و بہار سے بھی وافر حصہ دیا جائے گا۔ (تنبیہ) استسقاء کی اصل رُوح: امام ابوحنیفہؒ نے اس آیت سے یہ نکالاہے کہ استسقاء کی اصل حقیقت اور روح استغفار وانابت ہے اور نماز اس کی کامل ترین صورت ہے،جو سنت صحیحہ سے ثابت ہوئی۔
الحدیث : حضرت ابو حنیفہ رح حضرت جابر (رضی الله عنہ) سے مروی ہے کہ ایک انصاری آدمی نبی (صلی الله علیہ وسلم) کی خدمات میں آکر کہنے لگا کہ اے الله کے رسول! میرے یہاں ابھی تک کوئی اولاد نہیں ہوئی، نبی (صلی الله علیہ وسلم) نے فرمایا : (تو) تم کثرت_استغفار اور صدقہ (و خیرات کرنے) سے کہاں غفلت میں رہے ؟ اس کی برکت سے تمہیں اولاد نصیب ہوگی . اس آدمی نے کثرت سے صدقہ دینا اور استغفار کرنا شروع کردیا. حضرت جابر (رضی الله عنہ) کہتے ہیں کہ اس کی برکت سے اس کے ہاں نو (٩) "لڑکے" بدا ہوۓ.
[مسند امام اعظم : حدیث # ٤٤٦]
ترجمہ : اور کہا کہ اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے. وہ تم پر آسمان سے لگاتار مینہ برسائے گا. اور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہیں باغ عطا کرے گا اور ان میں تمہارے لئے نہریں بہا دے گا.
اللہ سے اپنے گناہ بخشواؤ:
یعنی باوجود سینکڑوں برس سمجھانےکے اب بھی اگر میری بات مان کر اپنے مالک کی طرف جھکو گے اور اس سے اپنی خطائیں معاف کراؤ گے تو وہ بڑا بخشنے والا ہے، پچھلے سب قصور یک قلم معاف کر دیگا۔
اللہ کی نعمتیں برسیں گی:
یعنی ایمان و استغفار کی برکت سے قحط و خشک سالی (جس میں وہ برسوں سے مبتلا تھے) دور ہو جائیگی اور اللہ تعالیٰ دھواں دھار برسنے والا بادل بھیج دیگا جس سے کھیت اور باغ خوب سیراب ہونگے۔ غلّے، پھل، میوہ کی افراط ہو گی، مواشی وغیرہ فربہ ہو جائیں گے، دودھ گھی بڑھ جائے گا اور عورتیں جو کفر و معصیت کی شامت سے بانجھ ہو رہی ہیں اولاد ذکور جننے لگیں گی۔ غرض آخرت کے ساتھ دنیا کے عیش و بہار سے بھی وافر حصہ دیا جائے گا۔ (تنبیہ) استسقاء کی اصل رُوح: امام ابوحنیفہؒ نے اس آیت سے یہ نکالاہے کہ استسقاء کی اصل حقیقت اور روح استغفار وانابت ہے اور نماز اس کی کامل ترین صورت ہے،جو سنت صحیحہ سے ثابت ہوئی۔
الحدیث : حضرت ابو حنیفہ رح حضرت جابر (رضی الله عنہ) سے مروی ہے کہ ایک انصاری آدمی نبی (صلی الله علیہ وسلم) کی خدمات میں آکر کہنے لگا کہ اے الله کے رسول! میرے یہاں ابھی تک کوئی اولاد نہیں ہوئی، نبی (صلی الله علیہ وسلم) نے فرمایا : (تو) تم کثرت_استغفار اور صدقہ (و خیرات کرنے) سے کہاں غفلت میں رہے ؟ اس کی برکت سے تمہیں اولاد نصیب ہوگی . اس آدمی نے کثرت سے صدقہ دینا اور استغفار کرنا شروع کردیا. حضرت جابر (رضی الله عنہ) کہتے ہیں کہ اس کی برکت سے اس کے ہاں نو (٩) "لڑکے" بدا ہوۓ.
[مسند امام اعظم : حدیث # ٤٤٦]
ظالم ابھی ہے فرصت_توبہ نہ دیر کر ،
وہ بھی گرا نہیں، جو گرا پھر سنبھل گیا.
وہ بھی گرا نہیں، جو گرا پھر سنبھل گیا.
ہم نے طے کیں اس طرح منزلیں،
گر پڑے، گر کر اٹھے، اٹھ کے چلے.
گر پڑے، گر کر اٹھے، اٹھ کے چلے.
توبہ ایک طرح سے باطنی وضو ہے ، جو دل کو گناہوں کی سیاہی سے طہارت کا تقویٰ حاصل کرنے کا پہلا اور بنیادی عمل ہے. توبہ سے تقویٰ کا حصول ایسے ہی ہے جیسے بے وضو ہونے پر وضو کرکے طہارت (تقویٰ) میں رہنا. تو کون ہے جو گناہوں سے طہارت (تقویٰ) کے ٹوٹنے پر فوراً توبہ کا وضو کرکے طہارت (تقویٰ) حاصل کرکے الله کا محبوب بنے؟؟؟
القرآن : ... اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ وَ یُحِبُّ الۡمُتَطَہِّرِیۡنَ [البقرہ : ۲۲۲]
ترجمہ : ... بیشک اللہ کو پسند آتے ہیں توبہ کرنے والے اور پسند آتے ہیں گندگی سے بچنے والے.
القرآن : ... اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ وَ یُحِبُّ الۡمُتَطَہِّرِیۡنَ [البقرہ : ۲۲۲]
ترجمہ : ... بیشک اللہ کو پسند آتے ہیں توبہ کرنے والے اور پسند آتے ہیں گندگی سے بچنے والے.
صبح کا بھولا شام کو لوٹ آۓ تو ...
الحدیث : التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ. [سنن ابن ماجه » كِتَاب الزُّهْدِ » بَاب ذِكْرِ التَّوْبَةِ ... رقم الحديث: 4248]
ترجمہ : گناہوں سے توبہ کرنے والا گناہ نہ کرنے والے کی طرح ہے.
الحدیث : التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ. [سنن ابن ماجه » كِتَاب الزُّهْدِ » بَاب ذِكْرِ التَّوْبَةِ ... رقم الحديث: 4248]
ترجمہ : گناہوں سے توبہ کرنے والا گناہ نہ کرنے والے کی طرح ہے.
توبہ و استغفار میں فرق:
توبہ باطنی عمل کو کہتے ہیں جبکہ استغفار ظاہری اقرار کو کہتے ہیں؛
الحدیث : النَّدَمُ تَوْبَةٌ [سنن ابن ماجه » كِتَاب الزُّهْدِ » بَاب ذِكْرِ التَّوْبَةِ ... رقم الحديث: 4250]
ترجمہ : ندامت توبہ ہے.
تو جس استغفار میں ندامت و پشیمانی نہ ہو وہ توبہ کیسے ہو سکتی ہے ؟؟؟
توبہ باطنی عمل کو کہتے ہیں جبکہ استغفار ظاہری اقرار کو کہتے ہیں؛
الحدیث : النَّدَمُ تَوْبَةٌ [سنن ابن ماجه » كِتَاب الزُّهْدِ » بَاب ذِكْرِ التَّوْبَةِ ... رقم الحديث: 4250]
ترجمہ : ندامت توبہ ہے.
تو جس استغفار میں ندامت و پشیمانی نہ ہو وہ توبہ کیسے ہو سکتی ہے ؟؟؟
کس کس کی کب توبہ قبول نہیں ہوگی:
إِنَّ الَّذينَ كَفَروا بَعدَ إيمٰنِهِم ثُمَّ ازدادوا كُفرًا لَن تُقبَلَ تَوبَتُهُم وَأُولٰئِكَ هُمُ الضّالّونَ {3:90}
جو لوگ منکر ہوئے مان کر پھر بڑھتے رہے انکار میں ہر گز قبول نہ ہوگی ان کی توبہ اور وہی ہیں گمراہ
یعنی جو لوگ حق کو مان کر اور سمجھ بوجھ کر منکر ہوئے پھر اخیر تک انکار میں ترقی کر تے رہے، نہ کھبی کفر سے ہٹنے کا نام لیا، نہ حق اور اہل حق کی عداوت ترک کی، بلکہ حق پرستوں کے ساتھ بحث و مناظرہ اور جنگ و جدل کرتے رہے۔ جب مرنے کا وقت آیا اور فرشتے جان نکالنے لگے تو توبہ کی سوجھی۔ یا کبھی کسی مصلحت سے ظاہر طور پر رسمی الفاظ توبہ کے کہہ لئے یا کفر پر برابر قائم رہتے ہوئے بعض دوسرے اعمال سے توبہ کر لی جنہیں اپنے زعم میں گناہ سمجھ رہے تھے۔ یہ توبہ کسی کام کی نہیں بارگاہ رب العزت میں اس کے قبول کی کوئی امید نہ رکھیں۔ ایسے لوگوں کو سچی توبہ نصیب ہی نہ ہو گی جو قبول ہو۔ ان کا کام ہمیشہ گمراہی کی وادیوں میں پڑے بھٹکتے رہنا ہے۔
إِنَّ الَّذينَ كَفَروا بَعدَ إيمٰنِهِم ثُمَّ ازدادوا كُفرًا لَن تُقبَلَ تَوبَتُهُم وَأُولٰئِكَ هُمُ الضّالّونَ {3:90}
جو لوگ منکر ہوئے مان کر پھر بڑھتے رہے انکار میں ہر گز قبول نہ ہوگی ان کی توبہ اور وہی ہیں گمراہ
یعنی جو لوگ حق کو مان کر اور سمجھ بوجھ کر منکر ہوئے پھر اخیر تک انکار میں ترقی کر تے رہے، نہ کھبی کفر سے ہٹنے کا نام لیا، نہ حق اور اہل حق کی عداوت ترک کی، بلکہ حق پرستوں کے ساتھ بحث و مناظرہ اور جنگ و جدل کرتے رہے۔ جب مرنے کا وقت آیا اور فرشتے جان نکالنے لگے تو توبہ کی سوجھی۔ یا کبھی کسی مصلحت سے ظاہر طور پر رسمی الفاظ توبہ کے کہہ لئے یا کفر پر برابر قائم رہتے ہوئے بعض دوسرے اعمال سے توبہ کر لی جنہیں اپنے زعم میں گناہ سمجھ رہے تھے۔ یہ توبہ کسی کام کی نہیں بارگاہ رب العزت میں اس کے قبول کی کوئی امید نہ رکھیں۔ ایسے لوگوں کو سچی توبہ نصیب ہی نہ ہو گی جو قبول ہو۔ ان کا کام ہمیشہ گمراہی کی وادیوں میں پڑے بھٹکتے رہنا ہے۔
إِنَّمَا التَّوبَةُ عَلَى اللَّهِ لِلَّذينَ يَعمَلونَ السّوءَ بِجَهٰلَةٍ ثُمَّ يَتوبونَ مِن قَريبٍ فَأُولٰئِكَ يَتوبُ اللَّهُ عَلَيهِم ۗ وَكانَ اللَّهُ عَليمًا حَكيمًا {4:17}
توبہ قبول کرنی اللہ کو ضرور تو انکی ہے جو کرتے ہیں برا کام جہالت سے پھر توبہ کرتے ہیں جلدی سے تو ان کو اللہ معاف کر دیتا ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا ہے حکمت والا [۳۵]
یعنی توبہ تو بیشک ایسی چیز ہے کہ زنا اور لواطت جیسے سنگین جرم بھی اس سے اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے جیسا کہ آیت سابقہ سے مفہوم ہوا لیکن اس کا بھی ضرور لحاظ رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے جو اپنے فضل سے قبول توبہ کا ذمہ لے لیا ہے وہ اصل میں ان لوگوں کے ساتھ مخصوص ہے جو ناواقفیت اور نادانی سے کوئی صغیرہ یا کبیرہ گناہ کر لیتے ہیں مگر جب اپنی خرابی پر متنبہ اور مطلع ہوتے ہیں تو جبھی نادم ہوتے ہیں اور توبہ کرتے ہیں سو ایسوں کی خطائیں اللہ ضرور معاف فرما دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے اس کو معلوم ہے کہ کس نے نادانی سے گناہ کیا اور کس نے اخلاص سے توبہ کی اور حکمت والا ہے جس توبہ کا قبول کرنا موافق حکمت ہوتا ہے اس کو قبول فرماتا ہے۔ {فائدہ} قید جہالت اور قید قریب سے معلوم ہو گیا کہ جو شخص گناہ تو کرے نادانی سے اور تنبیہ کے بعد توبہ کر لے جلدی سے تو بقاعدہ عدل و حکمت اس کی توبہ مقبول ہونی ضرور ہے اور جس نے جان بوجھ کر دیدہ و دانستہ اللہ کی نافرمانی پر جرأت کی یا اطلاع کے بعد اس نے توبہ میں تاخیر کی اور پہلی ہی حالت پر قائم رہا تو بقاعدہ عدل و انصاف اس کی خطا اصل میں معافی کے قابل نہیں اس کا قبول کر لینا اللہ تعالیٰ کا محض فضل ہے کہ اپنے فضل سے اللہ تعالیٰ ان دونوں توبہ کو بھی قبول کر لیتا ہے یہ اس کا احسان ہے۔ مگر ذمہ داری صرف اول صورت میں ہے باقی میں نہیں۔
وَلَيسَتِ التَّوبَةُ لِلَّذينَ يَعمَلونَ السَّيِّـٔاتِ حَتّىٰ إِذا حَضَرَ أَحَدَهُمُ المَوتُ قالَ إِنّى تُبتُ الـٰٔنَ وَلَا الَّذينَ يَموتونَ وَهُم كُفّارٌ ۚ أُولٰئِكَ أَعتَدنا لَهُم عَذابًا أَليمًا {4:18}
اور ایسوں کی توبہ نہیں جو کئے جاتے ہیں برے کام یہاں تک کہ جب سامنے آ جائے ان میں سے کسی کے موت تو کہنے لگا میں توبہ کرتا ہوں اب اور نہ ایسوں کی توبہ جو کہ مرتے ہیں حالت کفر میں ان کے لئے تو ہم نے تیار کیا ہے عذاب دردناک [۳۶]
یعنی اور ایسے لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہوتی جو برابر گناہ کئے جاتے ہیں اور باز نہیں آتے یہاں تک کہ جب موت ہی نظر آ گئ تو اس وقت کہنے لگا کہ اب میں توبہ کرتا ہوں اور نہ ان کی توبہ قبول ہو گی جو کفر پر مرگئے اور اس کے بعد عذاب اخروی کو دیکھ کر توبہ کریں۔ ایسے لوگوں کے واسطے عذاب شدید تیار ہے۔ جاننا چاہئے کہ یہ دونوں آیتیں جو دربارۂ قبول توبہ اور عدم قبول توبہ یہاں مذکور ہیں ہم نے جو ان کا مطلب بیان کیا یہ بعض اکابر محققین کی تحقیق کے موافق ہے اور اس میں یہ خوبی ہے کہ قید جہالت اور لفظ قریب دونوں اپنے ظاہری معنی پر قائم رہے اور علی اللہ کے معنی بھی سہولت سے بن گئے اور اس موقع پر قبول اور عدم قبول توبہ کے ذکر فرمانے سے جو مقصد ہے یعنی توبہ کیف مااتفق مقبول نہیں اور توبہ کی چند صورتیں ہیں اور ان کی مقبولیت میں باہم فرق ہے تاکہ کوئی توبہ کے اعتماد پر معاصی پر جری نہ ہو جائے یہ مقصد بھی اس صورت میں خوب حاصل ہو جاتا ہے مگر مفسرین حضرات نے علی العموم جو ان آیتوں کا مطلب ارشاد فرمایا ہے تو قید جہالت کو احترازی اور شرطی نہیں لیتے بلکہ قید واقعی فرماتے ہیں اور کہتے ہیں کہ گناہ ہمیشہ جہل اور حماقت سے ہوتا ہے اور قریب کے معنی یہ لیتے ہیں کہ حضور موت سے پہلے جس قدر وقت ہے وہ قریب ہی ہے کیونکہ دنیا کی زندگی قلیل ہے اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اللہ کا توبہ قبول فرمانے کا وعدہ ان سے ہے کہ سفاہت اور عدم انجام بینی سے گناہ کر لیتے ہیں اور پھر موت کے آنے سے پہلے تائب ہو جاتے ہیں اور جو لوگ کہ موت کو مشاہدہ کر چکے اور نزع کی حالت کو پہنچ چکے یا جو لوگ کہ کفر پر مر چکے ان کی تو بہ ہر گز قبول نہ ہو گی اس تقریر کے موافق توبہ کرنے والوں کی وہ دو صورتیں بین بین جو تقریر اول میں مذکور ہوئیں شق اول یعنی قبول توبہ کے اندر شمار ہو نگی۔ {فائدہ} جب موت کا یقین ہو چکے اور دوسرا عالم نظر آنے لگے تو اس وقت کی توبہ قبول نہیں اور عالم آخرت کے دیکھنے سے پہلے کی توبہ البتہ قبول ہوتی ہے۔ اتنا فرق ہے کہ حسب تقریر اول صورت اول میں تو قبول توبہ قاعدہ عدل و انصاف کے موافق ہے اور دوسری صورتوں میں قبول توبہ اس کا محض فضل ہے کما مّر۔
توبہ قبول کرنی اللہ کو ضرور تو انکی ہے جو کرتے ہیں برا کام جہالت سے پھر توبہ کرتے ہیں جلدی سے تو ان کو اللہ معاف کر دیتا ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا ہے حکمت والا [۳۵]
یعنی توبہ تو بیشک ایسی چیز ہے کہ زنا اور لواطت جیسے سنگین جرم بھی اس سے اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے جیسا کہ آیت سابقہ سے مفہوم ہوا لیکن اس کا بھی ضرور لحاظ رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے جو اپنے فضل سے قبول توبہ کا ذمہ لے لیا ہے وہ اصل میں ان لوگوں کے ساتھ مخصوص ہے جو ناواقفیت اور نادانی سے کوئی صغیرہ یا کبیرہ گناہ کر لیتے ہیں مگر جب اپنی خرابی پر متنبہ اور مطلع ہوتے ہیں تو جبھی نادم ہوتے ہیں اور توبہ کرتے ہیں سو ایسوں کی خطائیں اللہ ضرور معاف فرما دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے اس کو معلوم ہے کہ کس نے نادانی سے گناہ کیا اور کس نے اخلاص سے توبہ کی اور حکمت والا ہے جس توبہ کا قبول کرنا موافق حکمت ہوتا ہے اس کو قبول فرماتا ہے۔ {فائدہ} قید جہالت اور قید قریب سے معلوم ہو گیا کہ جو شخص گناہ تو کرے نادانی سے اور تنبیہ کے بعد توبہ کر لے جلدی سے تو بقاعدہ عدل و حکمت اس کی توبہ مقبول ہونی ضرور ہے اور جس نے جان بوجھ کر دیدہ و دانستہ اللہ کی نافرمانی پر جرأت کی یا اطلاع کے بعد اس نے توبہ میں تاخیر کی اور پہلی ہی حالت پر قائم رہا تو بقاعدہ عدل و انصاف اس کی خطا اصل میں معافی کے قابل نہیں اس کا قبول کر لینا اللہ تعالیٰ کا محض فضل ہے کہ اپنے فضل سے اللہ تعالیٰ ان دونوں توبہ کو بھی قبول کر لیتا ہے یہ اس کا احسان ہے۔ مگر ذمہ داری صرف اول صورت میں ہے باقی میں نہیں۔
وَلَيسَتِ التَّوبَةُ لِلَّذينَ يَعمَلونَ السَّيِّـٔاتِ حَتّىٰ إِذا حَضَرَ أَحَدَهُمُ المَوتُ قالَ إِنّى تُبتُ الـٰٔنَ وَلَا الَّذينَ يَموتونَ وَهُم كُفّارٌ ۚ أُولٰئِكَ أَعتَدنا لَهُم عَذابًا أَليمًا {4:18}
اور ایسوں کی توبہ نہیں جو کئے جاتے ہیں برے کام یہاں تک کہ جب سامنے آ جائے ان میں سے کسی کے موت تو کہنے لگا میں توبہ کرتا ہوں اب اور نہ ایسوں کی توبہ جو کہ مرتے ہیں حالت کفر میں ان کے لئے تو ہم نے تیار کیا ہے عذاب دردناک [۳۶]
یعنی اور ایسے لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہوتی جو برابر گناہ کئے جاتے ہیں اور باز نہیں آتے یہاں تک کہ جب موت ہی نظر آ گئ تو اس وقت کہنے لگا کہ اب میں توبہ کرتا ہوں اور نہ ان کی توبہ قبول ہو گی جو کفر پر مرگئے اور اس کے بعد عذاب اخروی کو دیکھ کر توبہ کریں۔ ایسے لوگوں کے واسطے عذاب شدید تیار ہے۔ جاننا چاہئے کہ یہ دونوں آیتیں جو دربارۂ قبول توبہ اور عدم قبول توبہ یہاں مذکور ہیں ہم نے جو ان کا مطلب بیان کیا یہ بعض اکابر محققین کی تحقیق کے موافق ہے اور اس میں یہ خوبی ہے کہ قید جہالت اور لفظ قریب دونوں اپنے ظاہری معنی پر قائم رہے اور علی اللہ کے معنی بھی سہولت سے بن گئے اور اس موقع پر قبول اور عدم قبول توبہ کے ذکر فرمانے سے جو مقصد ہے یعنی توبہ کیف مااتفق مقبول نہیں اور توبہ کی چند صورتیں ہیں اور ان کی مقبولیت میں باہم فرق ہے تاکہ کوئی توبہ کے اعتماد پر معاصی پر جری نہ ہو جائے یہ مقصد بھی اس صورت میں خوب حاصل ہو جاتا ہے مگر مفسرین حضرات نے علی العموم جو ان آیتوں کا مطلب ارشاد فرمایا ہے تو قید جہالت کو احترازی اور شرطی نہیں لیتے بلکہ قید واقعی فرماتے ہیں اور کہتے ہیں کہ گناہ ہمیشہ جہل اور حماقت سے ہوتا ہے اور قریب کے معنی یہ لیتے ہیں کہ حضور موت سے پہلے جس قدر وقت ہے وہ قریب ہی ہے کیونکہ دنیا کی زندگی قلیل ہے اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اللہ کا توبہ قبول فرمانے کا وعدہ ان سے ہے کہ سفاہت اور عدم انجام بینی سے گناہ کر لیتے ہیں اور پھر موت کے آنے سے پہلے تائب ہو جاتے ہیں اور جو لوگ کہ موت کو مشاہدہ کر چکے اور نزع کی حالت کو پہنچ چکے یا جو لوگ کہ کفر پر مر چکے ان کی تو بہ ہر گز قبول نہ ہو گی اس تقریر کے موافق توبہ کرنے والوں کی وہ دو صورتیں بین بین جو تقریر اول میں مذکور ہوئیں شق اول یعنی قبول توبہ کے اندر شمار ہو نگی۔ {فائدہ} جب موت کا یقین ہو چکے اور دوسرا عالم نظر آنے لگے تو اس وقت کی توبہ قبول نہیں اور عالم آخرت کے دیکھنے سے پہلے کی توبہ البتہ قبول ہوتی ہے۔ اتنا فرق ہے کہ حسب تقریر اول صورت اول میں تو قبول توبہ قاعدہ عدل و انصاف کے موافق ہے اور دوسری صورتوں میں قبول توبہ اس کا محض فضل ہے کما مّر۔
يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا توبوا إِلَى اللَّهِ تَوبَةً نَصوحًا عَسىٰ رَبُّكُم أَن يُكَفِّرَ عَنكُم سَيِّـٔاتِكُم وَيُدخِلَكُم جَنّٰتٍ تَجرى مِن تَحتِهَا الأَنهٰرُ يَومَ لا يُخزِى اللَّهُ النَّبِىَّ وَالَّذينَ ءامَنوا مَعَهُ ۖ نورُهُم يَسعىٰ بَينَ أَيديهِم وَبِأَيمٰنِهِم يَقولونَ رَبَّنا أَتمِم لَنا نورَنا وَاغفِر لَنا ۖ إِنَّكَ عَلىٰ كُلِّ شَيءٍ قَديرٌ {66:8}
اے ایمان والو توبہ کرو اللہ کی طرف صاف دل کی توبہ، امید ہے تمہارا رب اتار دے تم پر سے تمہاری برائیاں اور داخل کرے تم کو باغوں میں جنکے نیچے بہتی ہیں نہریں جس دن کہ اللہ ذلیل نہ کرے گا نبی کو اور اُن لوگوں کو جو یقین لاتے ہیں اُسکے ساتھ، اُنکی روشنی دوڑتی ہے اُنکے آگے اور اُنکے داہنے، کہتے ہیں اے رب ہمارے پوری کر دے ہماری روشنی اور معاف کر ہم کو بیشک تو سب کچھ کر سکتا ہے.
توبۃ النصوح کی تعریف:
صاف دل کی توبہ یہ کہ دل میں پھر گناہ کا خیال نہ رہے۔ اگر توبہ کے بعد ان ہی خرافات کا خیال پھر آیا تو سمجھو کہ توبہ میں کچھ کسر رہ گئ ہے۔ اور گناہ کی جڑ دل سے نہیں نکلی رزقنا اللّٰہ منھا حظا وافرابفضلہ وعونہ وھو علٰی کل شئ قدیر ۔
نبی ﷺ کا کہنا کیا۔ اس کے ساتھیوں کو بھی ذلیل نہ کریگا۔ بلکہ نہایت اعزارواکرام سے فضل و شرف کے بلند مناصب پر سرفراز فرمائے گا۔
ہماری روشنی آخر تک قائم رکھیے، بجھنے نہ دیجئے۔ جیسے منافقین کی نسبت سورۃ "حدید" میں بیان ہوچکا کہ روشنی بجھ جائیگی اور اندھیرے میں کھڑے رہ جائیں گے۔ مفسرین نے عمومًا یہ ہی لکھا ہے لیکن حضرت شاہ صاحبؒ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا کی مراد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "روشنی ایمان کی دل میں ہے، دل سے بڑھے تو سارے بدن میں، پھر گوشت پوست میں "(سرایت کرے)۔
==============================
استغفار کا حکم:
القرآن : وَاستَغفِرِ اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ كانَ غَفورًا رَحيمًا {4:106}
ترجمہ : اور خدا سے بخشش مانگنا بےشک خدا بخشنے والا مہربان ہے.
ایک مسلمان چور اور یہودی کا قصہ:
یعنی قبل تحقیق صرف ظاہر حال کو دیکھ کو چور کو بری اور یہودی مذکور کو چور خیال کر لینا تمہاری عصمت اور عظمت شان کے مناسب نہیں اس سے استغفار چاہئے اس میں کامل تنبیہ ہو گئ ان مخلصین کو جو بوجہ تعلق اسلامی یا قومی وغیرہ چور پر حسن ظن کر کے یہودی کے چور بنانے میں ساعی ہوئے۔
الحدیث : شیطان نے کہا : تیری عزت کی قسم ، اے رب ! میں تیرے بندوں کو جب تک روح ان کے جسموں میں موجود ہے ، بہکاتا رہوں گا . رب تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : میری عزت اور میرے جلال کی قسم ! میں بھی انھیں بخشتا رہوں گا، جب تک وہ استغفار (گناہوں سے بخشش) کرتے رہیں گے.
[المستدرك على الصحيحين » (4 : 256) رقم الحديث: 7738]
اے ایمان والو توبہ کرو اللہ کی طرف صاف دل کی توبہ، امید ہے تمہارا رب اتار دے تم پر سے تمہاری برائیاں اور داخل کرے تم کو باغوں میں جنکے نیچے بہتی ہیں نہریں جس دن کہ اللہ ذلیل نہ کرے گا نبی کو اور اُن لوگوں کو جو یقین لاتے ہیں اُسکے ساتھ، اُنکی روشنی دوڑتی ہے اُنکے آگے اور اُنکے داہنے، کہتے ہیں اے رب ہمارے پوری کر دے ہماری روشنی اور معاف کر ہم کو بیشک تو سب کچھ کر سکتا ہے.
توبۃ النصوح کی تعریف:
صاف دل کی توبہ یہ کہ دل میں پھر گناہ کا خیال نہ رہے۔ اگر توبہ کے بعد ان ہی خرافات کا خیال پھر آیا تو سمجھو کہ توبہ میں کچھ کسر رہ گئ ہے۔ اور گناہ کی جڑ دل سے نہیں نکلی رزقنا اللّٰہ منھا حظا وافرابفضلہ وعونہ وھو علٰی کل شئ قدیر ۔
نبی ﷺ کا کہنا کیا۔ اس کے ساتھیوں کو بھی ذلیل نہ کریگا۔ بلکہ نہایت اعزارواکرام سے فضل و شرف کے بلند مناصب پر سرفراز فرمائے گا۔
ہماری روشنی آخر تک قائم رکھیے، بجھنے نہ دیجئے۔ جیسے منافقین کی نسبت سورۃ "حدید" میں بیان ہوچکا کہ روشنی بجھ جائیگی اور اندھیرے میں کھڑے رہ جائیں گے۔ مفسرین نے عمومًا یہ ہی لکھا ہے لیکن حضرت شاہ صاحبؒ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا کی مراد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "روشنی ایمان کی دل میں ہے، دل سے بڑھے تو سارے بدن میں، پھر گوشت پوست میں "(سرایت کرے)۔
==============================
استغفار کا حکم:
القرآن : وَاستَغفِرِ اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ كانَ غَفورًا رَحيمًا {4:106}
ترجمہ : اور خدا سے بخشش مانگنا بےشک خدا بخشنے والا مہربان ہے.
ایک مسلمان چور اور یہودی کا قصہ:
یعنی قبل تحقیق صرف ظاہر حال کو دیکھ کو چور کو بری اور یہودی مذکور کو چور خیال کر لینا تمہاری عصمت اور عظمت شان کے مناسب نہیں اس سے استغفار چاہئے اس میں کامل تنبیہ ہو گئ ان مخلصین کو جو بوجہ تعلق اسلامی یا قومی وغیرہ چور پر حسن ظن کر کے یہودی کے چور بنانے میں ساعی ہوئے۔
الحدیث : شیطان نے کہا : تیری عزت کی قسم ، اے رب ! میں تیرے بندوں کو جب تک روح ان کے جسموں میں موجود ہے ، بہکاتا رہوں گا . رب تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : میری عزت اور میرے جلال کی قسم ! میں بھی انھیں بخشتا رہوں گا، جب تک وہ استغفار (گناہوں سے بخشش) کرتے رہیں گے.
[المستدرك على الصحيحين » (4 : 256) رقم الحديث: 7738]
القرآن : أَفَلا يَتوبونَ إِلَى اللَّهِ وَيَستَغفِرونَهُ ۚ وَاللَّهُ غَفورٌ رَحيمٌ {5:74}
ترجمہ : تو یہ کیوں الله کے آگے توبہ نہیں کرتے اور اس سے گناہوں کی معافی نہیں مانگتے اور الله تو بخشنے والا مہربان ہے.
نصاریٰ کا کفر و شرک:
یہ اسی غفور رحیم کی شان ہے کہ ایسے ایسے باغی اور گستاخ مجرم بھی جب شرمندہ ہو کر اور اصلاح کا عزم کر کے حاضر ہوں تو ایک منٹ میں عمر بھر کے جرائم معاف فرما دیتا ہے۔
الحدیث : جو بندہ حالت سجدہ میں تین مرتبہ کہتا ہے " رَبِّ اغْفِرْ لِي " یعنی میرے رب مجھے بخش دے ، تو اس کے سر اٹھانے سے قبل ہی اس کی مغفرت کردی جاتی ہے.[المعجم الكبير للطبراني » بَابُ الطَّاءِ » مَنِ اسْمُهُ طَارِقٌ » طَارِقُ بْنُ أَشْيَمَ الأَشْجَعِيُّ ... رقم الحديث: 8116]
ترجمہ : تو یہ کیوں الله کے آگے توبہ نہیں کرتے اور اس سے گناہوں کی معافی نہیں مانگتے اور الله تو بخشنے والا مہربان ہے.
نصاریٰ کا کفر و شرک:
یہ اسی غفور رحیم کی شان ہے کہ ایسے ایسے باغی اور گستاخ مجرم بھی جب شرمندہ ہو کر اور اصلاح کا عزم کر کے حاضر ہوں تو ایک منٹ میں عمر بھر کے جرائم معاف فرما دیتا ہے۔
الحدیث : جو بندہ حالت سجدہ میں تین مرتبہ کہتا ہے " رَبِّ اغْفِرْ لِي " یعنی میرے رب مجھے بخش دے ، تو اس کے سر اٹھانے سے قبل ہی اس کی مغفرت کردی جاتی ہے.[المعجم الكبير للطبراني » بَابُ الطَّاءِ » مَنِ اسْمُهُ طَارِقٌ » طَارِقُ بْنُ أَشْيَمَ الأَشْجَعِيُّ ... رقم الحديث: 8116]
القرآن : وَأَنِ استَغفِروا رَبَّكُم ثُمَّ توبوا إِلَيهِ يُمَتِّعكُم مَتٰعًا حَسَنًا إِلىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى وَيُؤتِ كُلَّ ذى فَضلٍ فَضلَهُ ۖ وَإِن تَوَلَّوا فَإِنّى أَخافُ عَلَيكُم عَذابَ يَومٍ كَبيرٍ {11:3}
ترجمہ : اور یہ کہ اپنے پروردگار سے بخشش مانگو اور اس کے آگے توبہ کرو وہ تو تم کو ایک وقت مقررہ تک متاع نیک سے بہرہ مند کرے گا اور ہر صاحب بزرگ کو اس کی بزرگی (کی داد) دے گا۔ اور اگر روگردانی کرو گے تو مجھے تمہارے بارے میں (قیامت کے) بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے.
رجوع الی اللہ کے فوائد:
جو پچھلی تقصیرات معاف کرائے اور آئندہ کے لئے خدا کی طرف دل سےرجوع ہو تو دنیا کی زندگی اچھی طرح گذرے کیونکہ مومن قانت خواہ کسی حال میں ہو۔ مگر خدا کے فضل و کرم کی بڑی بڑی امیدیں رکھتا ہے وہ حق تعالیٰ کی رضاء جوئی اور مستقبل کی عظیم الشان خوشحالی کے تصور میں اس قدر گمن رہتا ہے کہ یہاں کی بڑی بڑی سختیوں کو خاطر میں نہیں لاتا وہ جب خیال کرتا ہےکہ میں اپنی زندگی کے فرائض صحیح طور پر انجام دے رہا ہوں جس کا صلہ مجھ کو ضرور ایک دن عرش والی سرکار سے ملنے والا ہے تو اپنی کامیابی اور حق تعالیٰ کے وعدوں پر اعتماد کر کے اس کا دل جوش مسرت سے اچھلنے لگتا ہے۔ اسےدنیا کی تھوڑی سے پونجی میں وہ سکون قلبی اور راحت باطنی نصیب ہوتی ہے جو بادشاہوں کو بیشمار سامانوں اور اموال و خزائن سے حاصل نہیں ہو سکتی بلکہ بعض اوقات یہاں کی چند روزہ تکلیفوں اور سختیوں میں وہ لذت پاتے ہیں جو اغنیاء و ملوک اپنے عیش و تنعم میں محسوس نہیں کرتے۔ ایک محب وطن سیاسی قیدی کو اگر فرض کیجئے یقین ہو جائے کہ میری اسیری سے ملک اجنبیوں کی غلامی سے آزاد ہو جائے گا اور مجھے قید سے نکلتے ہی ملک کی جمہوریہ کا صدر بنا دیا جائے گا۔ تو کیا اسے جیل خانہ کی بند کوٹھری میں سرور و اطمینان کی کیفیت اس بادشاہ سے زیادہ حاصل نہ ہو گی ؟ جس کے لئے ہر قسم کے سامان عیش و طرب فراہم ہیں مگر اندیشہ لگا ہوا ہے کہ وہ ایک ہفتہ کے اندر نہایت ذلت کےساتھ تخت شاہی سے اتارا جانے والا ہے۔ اسی پر دنیا کے جیل خانہ میں ایک مومن قانت کی زندگی کو قیاس کر لو۔
جو جس قدر یادہ بڑھ کر عمل کرے گا اسی قدر خدا کے فضل سےزیادہ حصہ پائے گا ۔ آخرت میں اجر و ثواب او ردنیا میں مزید طمانیت حاصل ہوگی ۔
یعنی میری بات نہ مانو گے تو قیامت کو عذاب یقینی ہے ، باقی یہ فرمانا کہ "میں ڈرتا ہوں" اس سے مقصود حضور کی عام شفقت و ہمدردی خلائق کا اظہار کرنا ہے۔
الحدیث : جس کی منشا و خواھش ہو کہ اس کا نامہ اعمال اس کے لئے خوش گوار ثابت ہو تو اس کو چاہئے کہ اس میں استغفار کی کثرت کرے.
[المحدث: السيوطي - المصدر: الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم: 8322 ، خلاصة حكم المحدث: حسن
المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 5955 ، خلاصة حكم المحدث: صحيح]
ترجمہ : اور یہ کہ اپنے پروردگار سے بخشش مانگو اور اس کے آگے توبہ کرو وہ تو تم کو ایک وقت مقررہ تک متاع نیک سے بہرہ مند کرے گا اور ہر صاحب بزرگ کو اس کی بزرگی (کی داد) دے گا۔ اور اگر روگردانی کرو گے تو مجھے تمہارے بارے میں (قیامت کے) بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے.
رجوع الی اللہ کے فوائد:
جو پچھلی تقصیرات معاف کرائے اور آئندہ کے لئے خدا کی طرف دل سےرجوع ہو تو دنیا کی زندگی اچھی طرح گذرے کیونکہ مومن قانت خواہ کسی حال میں ہو۔ مگر خدا کے فضل و کرم کی بڑی بڑی امیدیں رکھتا ہے وہ حق تعالیٰ کی رضاء جوئی اور مستقبل کی عظیم الشان خوشحالی کے تصور میں اس قدر گمن رہتا ہے کہ یہاں کی بڑی بڑی سختیوں کو خاطر میں نہیں لاتا وہ جب خیال کرتا ہےکہ میں اپنی زندگی کے فرائض صحیح طور پر انجام دے رہا ہوں جس کا صلہ مجھ کو ضرور ایک دن عرش والی سرکار سے ملنے والا ہے تو اپنی کامیابی اور حق تعالیٰ کے وعدوں پر اعتماد کر کے اس کا دل جوش مسرت سے اچھلنے لگتا ہے۔ اسےدنیا کی تھوڑی سے پونجی میں وہ سکون قلبی اور راحت باطنی نصیب ہوتی ہے جو بادشاہوں کو بیشمار سامانوں اور اموال و خزائن سے حاصل نہیں ہو سکتی بلکہ بعض اوقات یہاں کی چند روزہ تکلیفوں اور سختیوں میں وہ لذت پاتے ہیں جو اغنیاء و ملوک اپنے عیش و تنعم میں محسوس نہیں کرتے۔ ایک محب وطن سیاسی قیدی کو اگر فرض کیجئے یقین ہو جائے کہ میری اسیری سے ملک اجنبیوں کی غلامی سے آزاد ہو جائے گا اور مجھے قید سے نکلتے ہی ملک کی جمہوریہ کا صدر بنا دیا جائے گا۔ تو کیا اسے جیل خانہ کی بند کوٹھری میں سرور و اطمینان کی کیفیت اس بادشاہ سے زیادہ حاصل نہ ہو گی ؟ جس کے لئے ہر قسم کے سامان عیش و طرب فراہم ہیں مگر اندیشہ لگا ہوا ہے کہ وہ ایک ہفتہ کے اندر نہایت ذلت کےساتھ تخت شاہی سے اتارا جانے والا ہے۔ اسی پر دنیا کے جیل خانہ میں ایک مومن قانت کی زندگی کو قیاس کر لو۔
جو جس قدر یادہ بڑھ کر عمل کرے گا اسی قدر خدا کے فضل سےزیادہ حصہ پائے گا ۔ آخرت میں اجر و ثواب او ردنیا میں مزید طمانیت حاصل ہوگی ۔
یعنی میری بات نہ مانو گے تو قیامت کو عذاب یقینی ہے ، باقی یہ فرمانا کہ "میں ڈرتا ہوں" اس سے مقصود حضور کی عام شفقت و ہمدردی خلائق کا اظہار کرنا ہے۔
الحدیث : جس کی منشا و خواھش ہو کہ اس کا نامہ اعمال اس کے لئے خوش گوار ثابت ہو تو اس کو چاہئے کہ اس میں استغفار کی کثرت کرے.
[المحدث: السيوطي - المصدر: الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم: 8322 ، خلاصة حكم المحدث: حسن
المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 5955 ، خلاصة حكم المحدث: صحيح]
القرآن : فَاصبِر إِنَّ وَعدَ اللَّهِ حَقٌّ وَاستَغفِر لِذَنبِكَ وَسَبِّح بِحَمدِ رَبِّكَ بِالعَشِىِّ وَالإِبكٰرِ {40:55}
ترجمہ : تو صبر کرو بےشک خدا کا وعدہ سچا ہے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور صبح وشام اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے رہو.
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی اور استغفار کا حکم:
یعنی آپ بھی تسلی رکھیے، جو وعدہ آپ کے ساتھ ہے ضرور پورا ہو کر رہے گا۔ خداوند قدوس دارین میں آپ کو اور آپ کے طفیل میں آپ کے متبعین کو سر بلند رکھے گا۔ ضرورت اس کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہر قسم کے شدائد و نوائب پر صبر کریں۔ اور جن سے جس درجہ کی تقصیر کا امکان ہو اس کی معافی خدا سے چاہتے رہیں۔ اور ہمیشہ رات دن صبح و شام اپنے پروردگار کی تسبیح و تحمید کا قولًا و فعلًا ورد رکھیں۔ ظاہر و باطن میں اس کی یاد سے غافل نہ ہوں۔ پھر اللہ کی مدد یقینی ہے۔ یہ حضور ﷺ کو مخاطب بنا کر ساری امت کو سنایا۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں کہ "حضرت رسول اللہ ﷺ دن میں سو سو بار استغفار کرتے۔ ہر بندے کی تقصیر اس کے درجہ کے موافق ہے اس لئے ہر کسی کو استغفار ضروری ہے"۔
ترجمہ : تو صبر کرو بےشک خدا کا وعدہ سچا ہے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور صبح وشام اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے رہو.
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی اور استغفار کا حکم:
یعنی آپ بھی تسلی رکھیے، جو وعدہ آپ کے ساتھ ہے ضرور پورا ہو کر رہے گا۔ خداوند قدوس دارین میں آپ کو اور آپ کے طفیل میں آپ کے متبعین کو سر بلند رکھے گا۔ ضرورت اس کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہر قسم کے شدائد و نوائب پر صبر کریں۔ اور جن سے جس درجہ کی تقصیر کا امکان ہو اس کی معافی خدا سے چاہتے رہیں۔ اور ہمیشہ رات دن صبح و شام اپنے پروردگار کی تسبیح و تحمید کا قولًا و فعلًا ورد رکھیں۔ ظاہر و باطن میں اس کی یاد سے غافل نہ ہوں۔ پھر اللہ کی مدد یقینی ہے۔ یہ حضور ﷺ کو مخاطب بنا کر ساری امت کو سنایا۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں کہ "حضرت رسول اللہ ﷺ دن میں سو سو بار استغفار کرتے۔ ہر بندے کی تقصیر اس کے درجہ کے موافق ہے اس لئے ہر کسی کو استغفار ضروری ہے"۔
القرآن : قُل إِنَّما أَنا۠ بَشَرٌ مِثلُكُم يوحىٰ إِلَىَّ أَنَّما إِلٰهُكُم إِلٰهٌ وٰحِدٌ فَاستَقيموا إِلَيهِ وَاستَغفِروهُ ۗ وَوَيلٌ لِلمُشرِكينَ {41:6}
ترجمہ : کہہ دو کہ میں بھی آدمی ہوں جیسے تم۔ (ہاں) مجھ پر یہ وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود خدائے واحد ہے تو سیدھے اسی کی طرف (متوجہ) رہو اور اسی سے مغفرت مانگو اور مشرکوں پر افسوس ہے.
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت:
یعنی نہ میں خدا ہوں کہ زبردستی تمہارے دلوں کو پھیر سکوں، نہ فرشتہ ہوں جس کے بھیجے جانے کی تم فرمائش کیا کرتے ہو نہ کوئی اور مخلوق ہوں، بلکہ تمہاری جنس و نوع کا ایک آدمی ہوں جس کی بات سمجھنا تم کو ہم جنسی کی بنا پر آسان ہونا چاہئے، اور وہ آدمی ہوں جسے حق تعالیٰ نے اپنی آخری اور کامل ترین سچی وحی کیلئے چن لیا ہے۔ بناءً علیہ خواہ تم کتنا ہی اعراض کرو اور کتنی ہی یاس انگیز باتیں کرو، میں خدائی پیغام تم کو ضرور پہنچاؤں گا۔ مجھے بذریعہ وحی بتلایا گیا ہے کہ تم سب کا معبود اور حاکم علی الاطلاق ایک ہے جس کے سوا کسی کی بندگی نہیں۔ لہذا سب کو لازم ہے کہ تمام شئون و احوال میں سیدھے اسی خدائے واحد کی طرف رخ کر کے چلیں اس کے راستہ سے ذرا ادھر ادھر قدم نہ ہٹائیں اور پہلے اگر ٹیڑھے ترچھے چلے ہیں تو اپنے پروردگار سے اس کی معافی چاہیں۔ اور اگلی پچھلی خطائیں بخشوائیں۔
الحدیث : الله کی قسم ! میں ہر روز ستر سے زیادہ مرتبہ بارگاہ الہی میں توبہ و استغفار کرتا ہوں.[صحيح البخاري » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » بَاب اسْتِغْفَارِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ ... رقم الحديث: 5859]
ستر (٧٠) بار سے بھی زیادہ.[صحيح البخاري » رقم الحديث: 5859]
میرے دل پر بھی پردہ سا آجاتا ہے ، اور میں ایک دن میں سو سے زائد بار استغفار کرتا ہوں.[صحيح مسلم » كِتَاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَار ... » بَاب اسْتِحْبَابِ الِاسْتِغْفَارِ وَالِاسْتِكْثَارِ ... رقم الحديث: 4876]
کس طرح ؟ کن الفاظ میں ؟؟؟
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَنَا ، وَارْحَمْنَا ، وَتُبْ عَلَيْنَا ، إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ " .
[السنن الكبرى للنسائي » كِتَابُ الزِّينَةِ » كَيْفَ الاسْتِغْفَارُ ... رقم الحديث: 9859]
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ، إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُورُ [رقم الحديث: 9857]
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ، وَارْحَمْنِي ، وَتُبْ عَلَيَّ ، إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُورُ [رقم الحديث: 9856]
رَبِّ اغْفِرْ لِي ، وَتُبْ عَلَيَّ ، إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُورُ . [رقم الحديث: 9855]
ترجمہ : کہہ دو کہ میں بھی آدمی ہوں جیسے تم۔ (ہاں) مجھ پر یہ وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود خدائے واحد ہے تو سیدھے اسی کی طرف (متوجہ) رہو اور اسی سے مغفرت مانگو اور مشرکوں پر افسوس ہے.
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت:
یعنی نہ میں خدا ہوں کہ زبردستی تمہارے دلوں کو پھیر سکوں، نہ فرشتہ ہوں جس کے بھیجے جانے کی تم فرمائش کیا کرتے ہو نہ کوئی اور مخلوق ہوں، بلکہ تمہاری جنس و نوع کا ایک آدمی ہوں جس کی بات سمجھنا تم کو ہم جنسی کی بنا پر آسان ہونا چاہئے، اور وہ آدمی ہوں جسے حق تعالیٰ نے اپنی آخری اور کامل ترین سچی وحی کیلئے چن لیا ہے۔ بناءً علیہ خواہ تم کتنا ہی اعراض کرو اور کتنی ہی یاس انگیز باتیں کرو، میں خدائی پیغام تم کو ضرور پہنچاؤں گا۔ مجھے بذریعہ وحی بتلایا گیا ہے کہ تم سب کا معبود اور حاکم علی الاطلاق ایک ہے جس کے سوا کسی کی بندگی نہیں۔ لہذا سب کو لازم ہے کہ تمام شئون و احوال میں سیدھے اسی خدائے واحد کی طرف رخ کر کے چلیں اس کے راستہ سے ذرا ادھر ادھر قدم نہ ہٹائیں اور پہلے اگر ٹیڑھے ترچھے چلے ہیں تو اپنے پروردگار سے اس کی معافی چاہیں۔ اور اگلی پچھلی خطائیں بخشوائیں۔
الحدیث : الله کی قسم ! میں ہر روز ستر سے زیادہ مرتبہ بارگاہ الہی میں توبہ و استغفار کرتا ہوں.[صحيح البخاري » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » بَاب اسْتِغْفَارِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ ... رقم الحديث: 5859]
ستر (٧٠) بار سے بھی زیادہ.[صحيح البخاري » رقم الحديث: 5859]
میرے دل پر بھی پردہ سا آجاتا ہے ، اور میں ایک دن میں سو سے زائد بار استغفار کرتا ہوں.[صحيح مسلم » كِتَاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَار ... » بَاب اسْتِحْبَابِ الِاسْتِغْفَارِ وَالِاسْتِكْثَارِ ... رقم الحديث: 4876]
کس طرح ؟ کن الفاظ میں ؟؟؟
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَنَا ، وَارْحَمْنَا ، وَتُبْ عَلَيْنَا ، إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ " .
[السنن الكبرى للنسائي » كِتَابُ الزِّينَةِ » كَيْفَ الاسْتِغْفَارُ ... رقم الحديث: 9859]
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ، إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُورُ [رقم الحديث: 9857]
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ، وَارْحَمْنِي ، وَتُبْ عَلَيَّ ، إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُورُ [رقم الحديث: 9856]
رَبِّ اغْفِرْ لِي ، وَتُبْ عَلَيَّ ، إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُورُ . [رقم الحديث: 9855]
القرآن : فَاعلَم أَنَّهُ لا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَاستَغفِر لِذَنبِكَ وَلِلمُؤمِنينَ وَالمُؤمِنٰتِ ۗ وَاللَّهُ يَعلَمُ مُتَقَلَّبَكُم وَمَثوىٰكُم {47:19}
ترجمہ : پس جان رکھو کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور (اور) مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لئے بھی۔ اور خدا تم لوگوں کے چلنے پھرنے اور ٹھیرنے سے واقف ہے.
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو استغفار کے حکم کی توضیح:
ہر ایک کا ذنب (گناہ) اس کے مرتبہ کے موافق ہوتا ہے۔ کسی کام کا بہت اچھا پہلو چھوڑ کر کم اچھا پہلو اختیار کرنا گو وہ حدود ءجواز و استحسان میں ہو، بعض اوقات مقربین کے حق میں ذنب (گناہ) سمجھا جاتا ہے۔ { حَسَنَاتُ الْابْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ } کے یہ ہی معنی ہیں۔ حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ دن میں سو بار استغفار فرماتے تھے (تنبیہ) { فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَااِلٰہَ اِلَّا للہُ } الخ کا خطاب ہر ایک مخاطب کو ہے۔ اور اگر خاص نبی کریم ﷺ مخاطب ہوں تو مطلب یہ ہے کہ اس علم پر برابر جمے رہیئے۔ اور استغفار کرتے رہے۔ اور { فَاعْلَمْ } کی تفریع ماقبل پر اس طرح ہے کہ قیامت آنے کے بعد کسی کو ایمان و توبہ وغیرہ نافع نہیں تو آدمی کو چاہئے کہ اس کے آنے سے قبل صحیح معرفت حاصل کرے۔ اور ایمان و استغفار کے طریق پر مستقیم رہے۔
یعنی جتنے پردوں میں پھرو گے پھر بہشت یا دوزخ میں پہنچو گے جو تمہار اصلی گھر ہے۔
الحدیث : جس مومن مرد و عورت کے لئے استغفار کیا ، اس کے لئے ہر مومن مرد و عورت کے بدلے ایک ایک نیکی لکھی جاۓ گی.
[مسند الشاميين للطبراني (3/234)» مَا انْتَهَى إِلَيْنَا مِنْ مُسْنَدِ يَعْلَى بْنِ ... رقم الحديث: 2118
المحدث: الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 10/213 ، خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد]
جس نے مومن مرد و عورت کے لئے ہر روز ستائیس (٢٧) بار الله سے استغفار کیا ، اس کو مستجاب الدعوات (وہ جس کی دعائیں قبول ہوں) میں لکھا جاۓ گا ، اور ان کے طفیل زمین والوں کو رزق رسانی ہوتی ہے.[الجامع الصغير السيوطي - الصفحة أو الرقم: 8420 ، خلاصة حكم المحدث: ضعيف]
ترجمہ : پس جان رکھو کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور (اور) مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لئے بھی۔ اور خدا تم لوگوں کے چلنے پھرنے اور ٹھیرنے سے واقف ہے.
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو استغفار کے حکم کی توضیح:
ہر ایک کا ذنب (گناہ) اس کے مرتبہ کے موافق ہوتا ہے۔ کسی کام کا بہت اچھا پہلو چھوڑ کر کم اچھا پہلو اختیار کرنا گو وہ حدود ءجواز و استحسان میں ہو، بعض اوقات مقربین کے حق میں ذنب (گناہ) سمجھا جاتا ہے۔ { حَسَنَاتُ الْابْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ } کے یہ ہی معنی ہیں۔ حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ دن میں سو بار استغفار فرماتے تھے (تنبیہ) { فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَااِلٰہَ اِلَّا للہُ } الخ کا خطاب ہر ایک مخاطب کو ہے۔ اور اگر خاص نبی کریم ﷺ مخاطب ہوں تو مطلب یہ ہے کہ اس علم پر برابر جمے رہیئے۔ اور استغفار کرتے رہے۔ اور { فَاعْلَمْ } کی تفریع ماقبل پر اس طرح ہے کہ قیامت آنے کے بعد کسی کو ایمان و توبہ وغیرہ نافع نہیں تو آدمی کو چاہئے کہ اس کے آنے سے قبل صحیح معرفت حاصل کرے۔ اور ایمان و استغفار کے طریق پر مستقیم رہے۔
یعنی جتنے پردوں میں پھرو گے پھر بہشت یا دوزخ میں پہنچو گے جو تمہار اصلی گھر ہے۔
الحدیث : جس مومن مرد و عورت کے لئے استغفار کیا ، اس کے لئے ہر مومن مرد و عورت کے بدلے ایک ایک نیکی لکھی جاۓ گی.
[مسند الشاميين للطبراني (3/234)» مَا انْتَهَى إِلَيْنَا مِنْ مُسْنَدِ يَعْلَى بْنِ ... رقم الحديث: 2118
المحدث: الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 10/213 ، خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد]
جس نے مومن مرد و عورت کے لئے ہر روز ستائیس (٢٧) بار الله سے استغفار کیا ، اس کو مستجاب الدعوات (وہ جس کی دعائیں قبول ہوں) میں لکھا جاۓ گا ، اور ان کے طفیل زمین والوں کو رزق رسانی ہوتی ہے.[الجامع الصغير السيوطي - الصفحة أو الرقم: 8420 ، خلاصة حكم المحدث: ضعيف]
القرآن : فَقُلتُ استَغفِروا رَبَّكُم إِنَّهُ كانَ غَفّارًا {71:10}
ترجمہ : اور کہا کہ اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے.
اللہ سے اپنے گناہ بخشواؤ:
یعنی باوجود سینکڑوں برس سمجھانےکے اب بھی اگر میری بات مان کر اپنے مالک کی طرف جھکو گے اور اس سے اپنی خطائیں معاف کراؤ گے تو وہ بڑا بخشنے والا ہے، پچھلے سب قصور یک قلم معاف کر دیگا۔
الحدیث : پروردگار بندے پر (از راہ رحمت و محبّت) تعجب فرماتا ہے ، جب وہ کہتا ہے : اے پروردگار ! میرے گناہ بخش دے ، اور جانتا ہے کہ میرے سوا گناہوں کو بخشنے والا کوئی نہیں.[جامع الترمذي » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » بَاب مَا يَقُولُ إِذَا رَكِبَ النَّاقَةَ ... رقم الحديث: 3392]
ترجمہ : اور کہا کہ اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے.
اللہ سے اپنے گناہ بخشواؤ:
یعنی باوجود سینکڑوں برس سمجھانےکے اب بھی اگر میری بات مان کر اپنے مالک کی طرف جھکو گے اور اس سے اپنی خطائیں معاف کراؤ گے تو وہ بڑا بخشنے والا ہے، پچھلے سب قصور یک قلم معاف کر دیگا۔
الحدیث : پروردگار بندے پر (از راہ رحمت و محبّت) تعجب فرماتا ہے ، جب وہ کہتا ہے : اے پروردگار ! میرے گناہ بخش دے ، اور جانتا ہے کہ میرے سوا گناہوں کو بخشنے والا کوئی نہیں.[جامع الترمذي » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » بَاب مَا يَقُولُ إِذَا رَكِبَ النَّاقَةَ ... رقم الحديث: 3392]
القرآن : فَسَبِّح بِحَمدِ رَبِّكَ وَاستَغفِرهُ ۚ إِنَّهُ كانَ تَوّابًا {110:3}
ترجمہ : تو اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرو اور اس سے مغفرت مانگو، بے شک وہ معاف کرنے والا ہے
غلبہ دین کا وعدہ اور تسبیح و تحمید کی تاکید:
یعنی سمجھ لیجیے کہ مقصود بعثت کا اور دنیا میں رہنے کا (جو تکمیل دین و تمہید خلافت کبریٰ ہے) پورا ہوا، اب سفر آخرت قریب ہے۔ لہٰذا ادھر سے فارغ ہو کر ہمہ تن ادھر ہی لگ جائیے۔ اور پہلے سے بھی زیادہ کثرت سے اللہ کی تسبیح و تحمید اور ان فتوحات اور کامیابیوں پر اس کا شکر ادا کیجیے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو استغفار کا حکم:
یعنی اپنے لئے اور امت کے لئے استغفار کیجیے۔ (تنبیہ) نبی کریم ﷺ کا اپنے لئے استغفار کرنا پہلے کئ جگہ بیان ہوچکا ہے، وہیں دیکھ لیا جائے۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں " یعنی قرآن میں ہر جگہ وعدہ ہے فیصلہ کا، اور کافر شتابی کرتے تھے۔ حضرت ﷺ کی آخر عمر میں مکہ فتح ہوچکا، قبائل عرب دَل کے دَل مسلمان ہونے لگے۔ وعدہ سچا ہوا اب امت کے گناہ بخشوایا کر کہ درجہ شفاعت کا بھی ملے۔ یہ سورت اتری آخر عمر میں، حضرت ﷺ نے جانا کہ میرا جو کام تھا دنیا میں کرچکا اب سفر ہے آخرت کا۔
الحدیث : کیا میں تمہیں ایسے کلمات نہ سکھاؤں کہ جب تم ان کو کہو گے تو الله تعالیٰ تمہاری مغفرت فرمادیں گے ، خواہ پہلے ہو چکی ہو؟ کہو : "الله کے سوا کوئی معبود نہیں ، جو عالی شان اور عظیم ہے ، الله کے سوا کوئی معبود نہیں ، جو بردبار اور کریم ہے ، الله کے سوا کوئی معبود نہیں ، جو ہر عیب سے پاک آسمانوں کا رب اور عرش عظیم کا رب ہے. اور تمام تعریفیں اس الله کے لئے ہیں جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے".
[جامع الترمذي » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » بَاب مَا جَاءَ فِي عَقْدِ التَّسْبِيحِ بِالْيَدِ ... رقم الحديث: 3450]
اور اسے روایت کیا ہے امام خطیب نے بھی ان الفاظ کے ساتھ : اگر تم ان کو کہو گے اور تم پر ذرات کے برابر خطائیں ہوں گی تب بھی الله بخش دے گا تمہیں.
[تاريخ بغداد للخطيب البغدادي » باب الطاء » ذكر من اسمه طاهر ... رقم الحديث: 3151]
ترجمہ : تو اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرو اور اس سے مغفرت مانگو، بے شک وہ معاف کرنے والا ہے
غلبہ دین کا وعدہ اور تسبیح و تحمید کی تاکید:
یعنی سمجھ لیجیے کہ مقصود بعثت کا اور دنیا میں رہنے کا (جو تکمیل دین و تمہید خلافت کبریٰ ہے) پورا ہوا، اب سفر آخرت قریب ہے۔ لہٰذا ادھر سے فارغ ہو کر ہمہ تن ادھر ہی لگ جائیے۔ اور پہلے سے بھی زیادہ کثرت سے اللہ کی تسبیح و تحمید اور ان فتوحات اور کامیابیوں پر اس کا شکر ادا کیجیے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو استغفار کا حکم:
یعنی اپنے لئے اور امت کے لئے استغفار کیجیے۔ (تنبیہ) نبی کریم ﷺ کا اپنے لئے استغفار کرنا پہلے کئ جگہ بیان ہوچکا ہے، وہیں دیکھ لیا جائے۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں " یعنی قرآن میں ہر جگہ وعدہ ہے فیصلہ کا، اور کافر شتابی کرتے تھے۔ حضرت ﷺ کی آخر عمر میں مکہ فتح ہوچکا، قبائل عرب دَل کے دَل مسلمان ہونے لگے۔ وعدہ سچا ہوا اب امت کے گناہ بخشوایا کر کہ درجہ شفاعت کا بھی ملے۔ یہ سورت اتری آخر عمر میں، حضرت ﷺ نے جانا کہ میرا جو کام تھا دنیا میں کرچکا اب سفر ہے آخرت کا۔
الحدیث : کیا میں تمہیں ایسے کلمات نہ سکھاؤں کہ جب تم ان کو کہو گے تو الله تعالیٰ تمہاری مغفرت فرمادیں گے ، خواہ پہلے ہو چکی ہو؟ کہو : "الله کے سوا کوئی معبود نہیں ، جو عالی شان اور عظیم ہے ، الله کے سوا کوئی معبود نہیں ، جو بردبار اور کریم ہے ، الله کے سوا کوئی معبود نہیں ، جو ہر عیب سے پاک آسمانوں کا رب اور عرش عظیم کا رب ہے. اور تمام تعریفیں اس الله کے لئے ہیں جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے".
[جامع الترمذي » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » بَاب مَا جَاءَ فِي عَقْدِ التَّسْبِيحِ بِالْيَدِ ... رقم الحديث: 3450]
اور اسے روایت کیا ہے امام خطیب نے بھی ان الفاظ کے ساتھ : اگر تم ان کو کہو گے اور تم پر ذرات کے برابر خطائیں ہوں گی تب بھی الله بخش دے گا تمہیں.
[تاريخ بغداد للخطيب البغدادي » باب الطاء » ذكر من اسمه طاهر ... رقم الحديث: 3151]
استغفار کب کب کرنا چاہیے:
القرآن : وَالَّذينَ إِذا فَعَلوا فٰحِشَةً أَو ظَلَموا أَنفُسَهُم ذَكَرُوا اللَّهَ فَاستَغفَروا لِذُنوبِهِم وَمَن يَغفِرُ الذُّنوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَم يُصِرّوا عَلىٰ ما فَعَلوا وَهُم يَعلَمونَ {3:135}
ترجمہ : اور وہ کہ جب کوئی کھلا گناہ یا اپنے حق میں کوئی اور برائی کر بیٹھتے ہیں تو الله کو یاد کرتے اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں اور الله کے سوا گناہ بخش بھی کون سکتا ہے؟ اور جان بوجھ کر اپنے افعال پر اڑے نہیں رہتے.
محسنین کی صفات:
یعنی کھلم کھلا کوئی بےحیائی کا کام کر گذریں جس کا اثر دوسروں تک متعدی ہو یا کسی اور بری حرکت کے مرتکب ہو جائیں جس کا ضرر ان ہی کی ذات تک محدود رہے۔
الحدیث : میری امّت کے بہترین افراد وہ ہیں کہ جب ان سے برائی سرزد ہوجاتی ہے تو استغفار کرلیتے ہیں اور جب ان سے کوئی نیکی کا کام انجام پاجاتا ہے تو خوش ہوتے ہیں، اور جب سفر پر گامزن ہوتے ہیں تو الله کی رخصت قبول کرتے ہوۓ نماز میں قصر اور روزوں میں افطار کرتے ہیں.
[سنن ابن ماجه:3818، مسند أحمد بن حنبل:24419]
القرآن : وَالَّذينَ إِذا فَعَلوا فٰحِشَةً أَو ظَلَموا أَنفُسَهُم ذَكَرُوا اللَّهَ فَاستَغفَروا لِذُنوبِهِم وَمَن يَغفِرُ الذُّنوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَم يُصِرّوا عَلىٰ ما فَعَلوا وَهُم يَعلَمونَ {3:135}
ترجمہ : اور وہ کہ جب کوئی کھلا گناہ یا اپنے حق میں کوئی اور برائی کر بیٹھتے ہیں تو الله کو یاد کرتے اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں اور الله کے سوا گناہ بخش بھی کون سکتا ہے؟ اور جان بوجھ کر اپنے افعال پر اڑے نہیں رہتے.
محسنین کی صفات:
یعنی کھلم کھلا کوئی بےحیائی کا کام کر گذریں جس کا اثر دوسروں تک متعدی ہو یا کسی اور بری حرکت کے مرتکب ہو جائیں جس کا ضرر ان ہی کی ذات تک محدود رہے۔
الحدیث : میری امّت کے بہترین افراد وہ ہیں کہ جب ان سے برائی سرزد ہوجاتی ہے تو استغفار کرلیتے ہیں اور جب ان سے کوئی نیکی کا کام انجام پاجاتا ہے تو خوش ہوتے ہیں، اور جب سفر پر گامزن ہوتے ہیں تو الله کی رخصت قبول کرتے ہوۓ نماز میں قصر اور روزوں میں افطار کرتے ہیں.
[سنن ابن ماجه:3818، مسند أحمد بن حنبل:24419]
القرآن : وَمَن يَعمَل سوءًا أَو يَظلِم نَفسَهُ ثُمَّ يَستَغفِرِ اللَّهَ يَجِدِ اللَّهَ غَفورًا رَحيمًا {4:110}
ترجمہ : اور جو شخص کوئی برا کام کر بیٹھے یا اپنے حق میں ظلم کرلے پھر خدا سے بخشش مانگے تو خدا کو بخشنے والا اور مہربان پائے گا.
سُوء اور ظلم کا فرق:
سوء اور ظلم سے بڑے اور چھوٹے گناہ مراد ہیں یا سوء سے وہ گناہ مراد ہے جس سے دوسرے کو درد پہنچے جیسے کسی پر تہمت لگانی اور ظلم وہ ہے کہ اس کی خرابی اپنے ہی نفس تک رہے یعنی گناہ کیسا ہی ہو اس کا علاج استغفار اور توبہ ہے توبہ کے بعد اللہ تعالیٰ البتہ معاف فرما دیتا ہے اگر آدمیوں نے جان بوجھ کر فریب سے کسی مجرم کی برأت ثابت کر دی یا غلطی سے مجرم کو بےقصور سمجھ گئے تو اس سے اس کے جرم میں تخفیف بھی نہیں ہو سکتی البتہ توبہ سے بالکل معاف ہو سکتا ہے اس میں اس چور اور اس کے سب طرفداروں کو جو دیدہ و دانستہ طرفدار بنے ہوں یا غلطی سے سبھی کو توبہ اور استغفار کا ارشاد ہو گیا اور اشارہ لطیف اس طرف بھی ہو گیا کہ اب بھی اگر کوئی اپنی بات پر جما رہے گا اور توبہ نہ کرے گا تو اللہ کی بخشش اور اس کی رحمت سے محروم ہو گا۔
ترجمہ : اور جو شخص کوئی برا کام کر بیٹھے یا اپنے حق میں ظلم کرلے پھر خدا سے بخشش مانگے تو خدا کو بخشنے والا اور مہربان پائے گا.
سُوء اور ظلم کا فرق:
سوء اور ظلم سے بڑے اور چھوٹے گناہ مراد ہیں یا سوء سے وہ گناہ مراد ہے جس سے دوسرے کو درد پہنچے جیسے کسی پر تہمت لگانی اور ظلم وہ ہے کہ اس کی خرابی اپنے ہی نفس تک رہے یعنی گناہ کیسا ہی ہو اس کا علاج استغفار اور توبہ ہے توبہ کے بعد اللہ تعالیٰ البتہ معاف فرما دیتا ہے اگر آدمیوں نے جان بوجھ کر فریب سے کسی مجرم کی برأت ثابت کر دی یا غلطی سے مجرم کو بےقصور سمجھ گئے تو اس سے اس کے جرم میں تخفیف بھی نہیں ہو سکتی البتہ توبہ سے بالکل معاف ہو سکتا ہے اس میں اس چور اور اس کے سب طرفداروں کو جو دیدہ و دانستہ طرفدار بنے ہوں یا غلطی سے سبھی کو توبہ اور استغفار کا ارشاد ہو گیا اور اشارہ لطیف اس طرف بھی ہو گیا کہ اب بھی اگر کوئی اپنی بات پر جما رہے گا اور توبہ نہ کرے گا تو اللہ کی بخشش اور اس کی رحمت سے محروم ہو گا۔
استغفار کے معمول کا بہترین وقت:
القرآن : الصّٰبِرينَ وَالصّٰدِقينَ وَالقٰنِتينَ وَالمُنفِقينَ وَالمُستَغفِرينَ بِالأَسحارِ {3:17}
ترجمہ : یہ وہ لوگ ہیں جو (مشکلات میں) صبر کرتے اور سچ بولتے اور عبادت میں لگے رہتے اور (راہ خدا میں) خرچ کرتے اور اوقات سحر میں گناہوں کی معافی مانگا کرتے ہیں.
اچھے بندوں کے اوصاف:
یعنی اللہ کے راستہ میں بڑی بڑی تکلیفیں اٹھا کر بھی اس کی فرمانبرداری پر جمے رہتے اور معصیت سے رکے رہتے ہیں۔ زبان کے، دل کے، نیت کے، معاملہ کے سچے ہیں۔ پوری تسلیم و انقیاد کے ساتھ خدا کے احکام بجا لاتے ہیں۔ خدا کی دی ہوئی دولت کو اس کے بتلائے ہوئے مواقع میں خرچ کرتے ہیں۔ اور پچھلی رات میں اٹھ کر (جو طمانیت و اجابت کا وقت ہوتا ہے لیکن اٹھنا اس وقت سہل نہیں ہوتا) اپنے رب سے گناہ اور تقصیرات معاف کراتے ہیں۔ { کَانُوْ اقَلِیْلاً مِّنَ الَّیْلِ مَا یَھْجَعُوْنَ وَ بِالْاَ سْحَارِھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ } (ذاریات رکوع ۱) یعنی اکثر رات عبادت میں گذارتے اور سحر کے وقت استغفار کرتے کہ خداوند ! عبادت میں جو تقصیر رہ گئ اپنے فضل سے معاف فرمانا۔
الحدیث : کیا میں تجھے سید الاستغفار (دعاۓ بخشش کا سردار) نہ بتاؤں؟ (وہ یہ ہے کہ) : اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ وَأَبُوءُ إِلَيْكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ ، وَأَعْتَرِفُ بِذُنُوبِي ، فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ
"اے الله تو ہی میرا رب ہے ، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، تو نے ہی مجھے پیدا کیا ، میں تیرا بندہ ہوں ، اپنی ہمّت و وسعت کے بقدر تیرے ساتھ کے ہوۓ عہد و پیمان پر کاربند ہوں ، میں تیری پناہ چاہتا ہوں اپنے کاموں کے شر سے ، میں اقرار کرتا ہوں تیری نعمتوں کا مجھ پر ، اور میں اقرار کرتا ہوں اپنے گناہوں کا بھی ، بس مجھے بخش دے یقیناً نہیں ہے کوئی گناہوں کو بخشنے والا تیرے سوا".
جو بندہ شام کو یہ کہتا ہے اور پھر صبح سے قبل اس کی موت آجاتی ہے تو اس کے لئے جنّت واجب ہوجاتی ہے.[جامع الترمذي » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » بَاب مَا جَاءَ فِي الدُّعَاءِ إِذَا أَصْبَحَ وَإِذَا ... رقم الحديث: 3340]
(اور ایک روایت میں آیا ہے) جس نے دن کے وقت اس کلمہ کو دل کے یقین کے ساتھ کہا اور پھر شام سے قبل موت نے آلیا تو وہ اہل جنّت میں شمار ہوگا.[صحيح البخاري » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » بَاب أَفْضَلِ الِاسْتِغْفَارِ ... رقم الحديث: 5858]
(نسائی کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ) اور جس نے ان کلمات کو رات کے وقت دل کے یقین کے ساتھ کہا اور صبح سے قبل موت نے آلیا تو وہ اہل جنّت میں شمار ہوگا.[سنن النسائى الصغرى » كِتَاب الِاسْتِعَاذَةِ » الِاسْتِعَاذَةِ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعَ ... رقم الحديث: 5455]
القرآن : الصّٰبِرينَ وَالصّٰدِقينَ وَالقٰنِتينَ وَالمُنفِقينَ وَالمُستَغفِرينَ بِالأَسحارِ {3:17}
ترجمہ : یہ وہ لوگ ہیں جو (مشکلات میں) صبر کرتے اور سچ بولتے اور عبادت میں لگے رہتے اور (راہ خدا میں) خرچ کرتے اور اوقات سحر میں گناہوں کی معافی مانگا کرتے ہیں.
اچھے بندوں کے اوصاف:
یعنی اللہ کے راستہ میں بڑی بڑی تکلیفیں اٹھا کر بھی اس کی فرمانبرداری پر جمے رہتے اور معصیت سے رکے رہتے ہیں۔ زبان کے، دل کے، نیت کے، معاملہ کے سچے ہیں۔ پوری تسلیم و انقیاد کے ساتھ خدا کے احکام بجا لاتے ہیں۔ خدا کی دی ہوئی دولت کو اس کے بتلائے ہوئے مواقع میں خرچ کرتے ہیں۔ اور پچھلی رات میں اٹھ کر (جو طمانیت و اجابت کا وقت ہوتا ہے لیکن اٹھنا اس وقت سہل نہیں ہوتا) اپنے رب سے گناہ اور تقصیرات معاف کراتے ہیں۔ { کَانُوْ اقَلِیْلاً مِّنَ الَّیْلِ مَا یَھْجَعُوْنَ وَ بِالْاَ سْحَارِھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ } (ذاریات رکوع ۱) یعنی اکثر رات عبادت میں گذارتے اور سحر کے وقت استغفار کرتے کہ خداوند ! عبادت میں جو تقصیر رہ گئ اپنے فضل سے معاف فرمانا۔
الحدیث : کیا میں تجھے سید الاستغفار (دعاۓ بخشش کا سردار) نہ بتاؤں؟ (وہ یہ ہے کہ) : اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ وَأَبُوءُ إِلَيْكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ ، وَأَعْتَرِفُ بِذُنُوبِي ، فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ
"اے الله تو ہی میرا رب ہے ، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، تو نے ہی مجھے پیدا کیا ، میں تیرا بندہ ہوں ، اپنی ہمّت و وسعت کے بقدر تیرے ساتھ کے ہوۓ عہد و پیمان پر کاربند ہوں ، میں تیری پناہ چاہتا ہوں اپنے کاموں کے شر سے ، میں اقرار کرتا ہوں تیری نعمتوں کا مجھ پر ، اور میں اقرار کرتا ہوں اپنے گناہوں کا بھی ، بس مجھے بخش دے یقیناً نہیں ہے کوئی گناہوں کو بخشنے والا تیرے سوا".
جو بندہ شام کو یہ کہتا ہے اور پھر صبح سے قبل اس کی موت آجاتی ہے تو اس کے لئے جنّت واجب ہوجاتی ہے.[جامع الترمذي » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » بَاب مَا جَاءَ فِي الدُّعَاءِ إِذَا أَصْبَحَ وَإِذَا ... رقم الحديث: 3340]
(اور ایک روایت میں آیا ہے) جس نے دن کے وقت اس کلمہ کو دل کے یقین کے ساتھ کہا اور پھر شام سے قبل موت نے آلیا تو وہ اہل جنّت میں شمار ہوگا.[صحيح البخاري » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » بَاب أَفْضَلِ الِاسْتِغْفَارِ ... رقم الحديث: 5858]
(نسائی کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ) اور جس نے ان کلمات کو رات کے وقت دل کے یقین کے ساتھ کہا اور صبح سے قبل موت نے آلیا تو وہ اہل جنّت میں شمار ہوگا.[سنن النسائى الصغرى » كِتَاب الِاسْتِعَاذَةِ » الِاسْتِعَاذَةِ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعَ ... رقم الحديث: 5455]
القرآن : وَبِالأَسحارِ هُم يَستَغفِرونَ {51:18}
ترجمہ : اور اوقات سحر میں بخشش مانگا کرتے تھے.
محسنین اور متقین کی صفات:
یعنی رات کا اکثر حصہ عبادت الہٰی میں گذارتے اور سحر کے وقت جب رات ختم ہونے کو آتی اللہ سے اپنی تقصیرات کی معافی مانگتے کہ الہٰی حق عبودیت ادا نہ ہوسکا۔ جو کوتاہی رہی اپنی رحمت سے معاف فرما دیجئے۔ کثرت عبادت ان کو مغرور نہ کرتی تھی۔ بلکہ جس قدر بندگی میں ترقی کرتے جاتے خشیت و خوف بڑھتا جاتا تھا۔
الحدیث : جس نے ہر فرض نماز کے بعد الله سے یوں استغفار کیا تین بار : ((أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ الَّذِي لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ )) یعنی میں الله سے اپنے گناہوں کی بخشش کا طلبگار ہوں ، جس کے سوا کوئی پرستش کے لائق نہیں ، وہ ہمیشہ سے زندہ ہے ، ہر شے اسی کے دم سے قائم ہے اور میں اسی کی طرف رجوع و توبہ تائب ہوتا ہوں. تو اس کے تمام گناہ بخش دیے جائیں گے خواہ جنگ سے بھاگنے کا گناہ کیوں نہ ہو.
[عمل اليوم والليلة لابن السني » بَابُ : مَا يَقُولُ فِي دُبُرِ صَلاةِ الصُّبْحِ ... رقم الحديث: 136]
ترجمہ : اور اوقات سحر میں بخشش مانگا کرتے تھے.
محسنین اور متقین کی صفات:
یعنی رات کا اکثر حصہ عبادت الہٰی میں گذارتے اور سحر کے وقت جب رات ختم ہونے کو آتی اللہ سے اپنی تقصیرات کی معافی مانگتے کہ الہٰی حق عبودیت ادا نہ ہوسکا۔ جو کوتاہی رہی اپنی رحمت سے معاف فرما دیجئے۔ کثرت عبادت ان کو مغرور نہ کرتی تھی۔ بلکہ جس قدر بندگی میں ترقی کرتے جاتے خشیت و خوف بڑھتا جاتا تھا۔
الحدیث : جس نے ہر فرض نماز کے بعد الله سے یوں استغفار کیا تین بار : ((أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ الَّذِي لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ )) یعنی میں الله سے اپنے گناہوں کی بخشش کا طلبگار ہوں ، جس کے سوا کوئی پرستش کے لائق نہیں ، وہ ہمیشہ سے زندہ ہے ، ہر شے اسی کے دم سے قائم ہے اور میں اسی کی طرف رجوع و توبہ تائب ہوتا ہوں. تو اس کے تمام گناہ بخش دیے جائیں گے خواہ جنگ سے بھاگنے کا گناہ کیوں نہ ہو.
[عمل اليوم والليلة لابن السني » بَابُ : مَا يَقُولُ فِي دُبُرِ صَلاةِ الصُّبْحِ ... رقم الحديث: 136]
مشرکین اور منافقین کے لئے استغفار (بخشش کی دعا) ممنوع:
القرآن : ما كانَ لِلنَّبِىِّ وَالَّذينَ ءامَنوا أَن يَستَغفِروا لِلمُشرِكينَ وَلَو كانوا أُولى قُربىٰ مِن بَعدِ ما تَبَيَّنَ لَهُم أَنَّهُم أَصحٰبُ الجَحيمِ {9:113}
ترجمہ : پیغمبر اور مسلمانوں کو شایاں نہیں کہ جب ان پر ظاہر ہوگیا کہ مشرک اہل دوزخ ہیں۔ تو ان کے لیے بخشش مانگیں گو وہ ان کے قرابت دار ہی ہوں.
بد عہد کفار سے قتال:
مومنین جب جان و مال سے خدا کے ہاتھ بیع ہو چکے تو ضروری ہے کہ تنہا اسی کے ہو کر رہیں۔ اعداء اللہ سے جن کا دشمن خدا اور جہنی ہونا معلوم ہو چکا ہو۔ محبت و مہربانی کا واسطہ نہ رکھیں۔ خواہ یہ دشمنان خدا ان کے ماں باپ ، چچا، تایا اور خاص بھائی بند ہی کیوں نہ ہوں۔ جو خدا کا باغی اور دشمن ہے وہ اس کا دوست کیسے ہو سکتا ہے۔ پس جس شخص کی بابت پتہ چل جائے کہ بالیقین دوزخی ہے۔ خواہ وحی الہٰی کے ذریعہ سے یا اس طرح کہ علانیہ کفر و شرک پر اس کو موت آ چکی ہو اس کے حق میں استغفار کرنا اور بخشش مانگنا ممنوع ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ یہ آیت آنحضرت ﷺ کی والدہ حضرت آمنہ کے بارہ میں نازل ہوئی۔ بعض احادیث میں مذکور ہے کہ آپ ﷺ کے چچا ابو طالب کے حق میں اتری ۔ اور بعض نے نقل کیا ہے کہ مسلمانوں نے چاہا کہ اپنے آباء مشرکین کے لئے جو مر چکے تھے استغفار کریں۔ اس آیت میں ان کو منع کیا گیا۔ بہرحال شان نزول کچھ ہو حکم یہ ہےکہ کفار و مشرکین کے حق میں جن کا خاتمہ کفر و شرک پر معلوم ہو جائے استغفار جائز نہیں۔ (تنبیہ) حضور ﷺ کے والدین کے بارہ میں علمائے اسلام کے اقوال بہت مختلف ہیں۔ بعض نے ان کو مومن و ناجی ثابت کرنے کے لئے مستقل رسائل لکھے ہیں اور شراح حدیث نے محدثانہ متکلمانہ بحثیں کی ہیں ۔ احتیاط و سلامت روی کا طریقہ اس مسئلہ میں یہ ہے کہ زبان بند رکھی جائے۔ اور ایسے نازک مباحث میں خوض کرنے سے احتراض کیا جائے۔ حقیقت حال کو خدا ہی جانتا ہے اور وہ ہی تمام مسائل کا ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرنے والا ہے۔
القرآن : ما كانَ لِلنَّبِىِّ وَالَّذينَ ءامَنوا أَن يَستَغفِروا لِلمُشرِكينَ وَلَو كانوا أُولى قُربىٰ مِن بَعدِ ما تَبَيَّنَ لَهُم أَنَّهُم أَصحٰبُ الجَحيمِ {9:113}
ترجمہ : پیغمبر اور مسلمانوں کو شایاں نہیں کہ جب ان پر ظاہر ہوگیا کہ مشرک اہل دوزخ ہیں۔ تو ان کے لیے بخشش مانگیں گو وہ ان کے قرابت دار ہی ہوں.
بد عہد کفار سے قتال:
مومنین جب جان و مال سے خدا کے ہاتھ بیع ہو چکے تو ضروری ہے کہ تنہا اسی کے ہو کر رہیں۔ اعداء اللہ سے جن کا دشمن خدا اور جہنی ہونا معلوم ہو چکا ہو۔ محبت و مہربانی کا واسطہ نہ رکھیں۔ خواہ یہ دشمنان خدا ان کے ماں باپ ، چچا، تایا اور خاص بھائی بند ہی کیوں نہ ہوں۔ جو خدا کا باغی اور دشمن ہے وہ اس کا دوست کیسے ہو سکتا ہے۔ پس جس شخص کی بابت پتہ چل جائے کہ بالیقین دوزخی ہے۔ خواہ وحی الہٰی کے ذریعہ سے یا اس طرح کہ علانیہ کفر و شرک پر اس کو موت آ چکی ہو اس کے حق میں استغفار کرنا اور بخشش مانگنا ممنوع ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ یہ آیت آنحضرت ﷺ کی والدہ حضرت آمنہ کے بارہ میں نازل ہوئی۔ بعض احادیث میں مذکور ہے کہ آپ ﷺ کے چچا ابو طالب کے حق میں اتری ۔ اور بعض نے نقل کیا ہے کہ مسلمانوں نے چاہا کہ اپنے آباء مشرکین کے لئے جو مر چکے تھے استغفار کریں۔ اس آیت میں ان کو منع کیا گیا۔ بہرحال شان نزول کچھ ہو حکم یہ ہےکہ کفار و مشرکین کے حق میں جن کا خاتمہ کفر و شرک پر معلوم ہو جائے استغفار جائز نہیں۔ (تنبیہ) حضور ﷺ کے والدین کے بارہ میں علمائے اسلام کے اقوال بہت مختلف ہیں۔ بعض نے ان کو مومن و ناجی ثابت کرنے کے لئے مستقل رسائل لکھے ہیں اور شراح حدیث نے محدثانہ متکلمانہ بحثیں کی ہیں ۔ احتیاط و سلامت روی کا طریقہ اس مسئلہ میں یہ ہے کہ زبان بند رکھی جائے۔ اور ایسے نازک مباحث میں خوض کرنے سے احتراض کیا جائے۔ حقیقت حال کو خدا ہی جانتا ہے اور وہ ہی تمام مسائل کا ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرنے والا ہے۔
القرآن : استَغفِر لَهُم أَو لا تَستَغفِر لَهُم إِن تَستَغفِر لَهُم سَبعينَ مَرَّةً فَلَن يَغفِرَ اللَّهُ لَهُم ۚ ذٰلِكَ بِأَنَّهُم كَفَروا بِاللَّهِ وَرَسولِهِ ۗ وَاللَّهُ لا يَهدِى القَومَ الفٰسِقينَ {9:80}
ترجمہ : تم ان کے لیے بخشش مانگو یا نہ مانگو۔ (بات ایک ہے)۔ اگر ان کے لیے ستّر دفعہ بھی بخشش مانگو گے تو بھی خدا ان کو نہیں بخشے گا۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے خدا اور اس کے رسول سے کفر کیا۔ اور خدا نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا.
منافقین کے لئے استغفار عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ:
یعنی منافقین کے لئے آپ ﷺ کتنی ہی مرتبہ استغفار کیجئے ان کے حق میں بالکل بیکار اور بے فائدہ ہے۔ خدا ان بدبخت کافروں اور نافرمانوں کو کبھی معاف نہ کرے گا۔ واقعہ یہ پیش آیا کہ مدینہ میں رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کا انتقال ہوا۔ آپ ﷺ نے قمیص مبارک کفن میں دیا ، لعاب مبارک اس کے منہ میں ڈالا۔ نماز جنازہ پڑھی اور دعائے مغفرت کی ۔ حضرت عمرؓ اس معاملہ میں آڑے آتے تھے اور کہتے تھے کہ یا رسول اللہ ﷺ! یہ وہی خبیث تو ہے جس نے فلاں فلاں وقت ایسی ایسی نالائق حرکات کیں۔ ہمیشہ کفر و نفاق کا عملبردار رہا۔ کیا حق تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا { اِسْتَغْفِرْ لَھُمْ اَوْلَا تَسْتَغْفِرْ لَھُمْ ؕ اِنْ تَسْتَغْفِرْ لَھُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَنْ یَّغْفِرَ اللہُ لَھُمْ } آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے عمرؓ ! مجھ کو استغفار سے منع نہیں کیا گیا ۔ بلکہ آزاد رکھا گیا ہے کہ استغفار کروں یا نہ کروں۔ یہ خدا کا فعل ہے کہ ان کو معاف نہ کرے۔ یعنی ان کے حق میں میرا استغفار نافع نہ ہو (سو ان کے حق میں نہ سہی ممکن ہے دوسروں کے حق میں میرا یہ طرز عمل نافع ہو جائے دوسرے لوگ سب سے بڑے موذی دشمن کے حق میں نبی کے اس وسعت اخلاق اور وفور رحمت و شفقت کو دیکھ کر اسلام و پیغمبر کے گرویدہ ہو جائیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا) صحیح بخاری کی ایک روایت میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر میں جانتا کہ ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کرنے سے اس کی مغفرت ہو سکتی ہے تو میں ستر مرتبہ سے زائد استغفار کرتا" گویا اس جملہ میں حضور ﷺ نے متنبہ فرمایا کہ حضرت عمرؓ کی طرح آپ ﷺ بھی اس کے حق میں استغفار کو غیر مفید تصور فرما رہے تھے۔ فرق اس قدر ہے کہ حضرت عمرؓ کی نظر "بغض فی اللہ " کے جوش میں صرف اسی نقطہ پر مقصور تھی اور نبی کریم ﷺ میت کے فائدہ سے قطع نظر فرما کر عام پیغمبرانہ شفقت کا اظہار اور احیاء کے فائدہ کا خیال فرما رہے تھے۔ لیکن آخر کار وحی الہٰی { وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓی اَحَدٍ مِنْھُمْ مَاتَ اَبَدً اَولَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ } نے صریح طور پر منافقین کا جنازہ پڑھنے یا ان کے اہتمام دفن و کفن وغیرہ میں حصہ لینے کی ممانعت کر دی۔ کیونکہ اس طرز عمل سے منافقین کی ہمت افزائی اور مومنین کی دل شکستگی کا احتمال تھا۔ اس وقت سے حضور ﷺ نے کسی منافق کے جنازہ کی نماز نہیں پڑھی۔
ترجمہ : تم ان کے لیے بخشش مانگو یا نہ مانگو۔ (بات ایک ہے)۔ اگر ان کے لیے ستّر دفعہ بھی بخشش مانگو گے تو بھی خدا ان کو نہیں بخشے گا۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے خدا اور اس کے رسول سے کفر کیا۔ اور خدا نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا.
منافقین کے لئے استغفار عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ:
یعنی منافقین کے لئے آپ ﷺ کتنی ہی مرتبہ استغفار کیجئے ان کے حق میں بالکل بیکار اور بے فائدہ ہے۔ خدا ان بدبخت کافروں اور نافرمانوں کو کبھی معاف نہ کرے گا۔ واقعہ یہ پیش آیا کہ مدینہ میں رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کا انتقال ہوا۔ آپ ﷺ نے قمیص مبارک کفن میں دیا ، لعاب مبارک اس کے منہ میں ڈالا۔ نماز جنازہ پڑھی اور دعائے مغفرت کی ۔ حضرت عمرؓ اس معاملہ میں آڑے آتے تھے اور کہتے تھے کہ یا رسول اللہ ﷺ! یہ وہی خبیث تو ہے جس نے فلاں فلاں وقت ایسی ایسی نالائق حرکات کیں۔ ہمیشہ کفر و نفاق کا عملبردار رہا۔ کیا حق تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا { اِسْتَغْفِرْ لَھُمْ اَوْلَا تَسْتَغْفِرْ لَھُمْ ؕ اِنْ تَسْتَغْفِرْ لَھُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَنْ یَّغْفِرَ اللہُ لَھُمْ } آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے عمرؓ ! مجھ کو استغفار سے منع نہیں کیا گیا ۔ بلکہ آزاد رکھا گیا ہے کہ استغفار کروں یا نہ کروں۔ یہ خدا کا فعل ہے کہ ان کو معاف نہ کرے۔ یعنی ان کے حق میں میرا استغفار نافع نہ ہو (سو ان کے حق میں نہ سہی ممکن ہے دوسروں کے حق میں میرا یہ طرز عمل نافع ہو جائے دوسرے لوگ سب سے بڑے موذی دشمن کے حق میں نبی کے اس وسعت اخلاق اور وفور رحمت و شفقت کو دیکھ کر اسلام و پیغمبر کے گرویدہ ہو جائیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا) صحیح بخاری کی ایک روایت میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر میں جانتا کہ ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کرنے سے اس کی مغفرت ہو سکتی ہے تو میں ستر مرتبہ سے زائد استغفار کرتا" گویا اس جملہ میں حضور ﷺ نے متنبہ فرمایا کہ حضرت عمرؓ کی طرح آپ ﷺ بھی اس کے حق میں استغفار کو غیر مفید تصور فرما رہے تھے۔ فرق اس قدر ہے کہ حضرت عمرؓ کی نظر "بغض فی اللہ " کے جوش میں صرف اسی نقطہ پر مقصور تھی اور نبی کریم ﷺ میت کے فائدہ سے قطع نظر فرما کر عام پیغمبرانہ شفقت کا اظہار اور احیاء کے فائدہ کا خیال فرما رہے تھے۔ لیکن آخر کار وحی الہٰی { وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓی اَحَدٍ مِنْھُمْ مَاتَ اَبَدً اَولَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ } نے صریح طور پر منافقین کا جنازہ پڑھنے یا ان کے اہتمام دفن و کفن وغیرہ میں حصہ لینے کی ممانعت کر دی۔ کیونکہ اس طرز عمل سے منافقین کی ہمت افزائی اور مومنین کی دل شکستگی کا احتمال تھا۔ اس وقت سے حضور ﷺ نے کسی منافق کے جنازہ کی نماز نہیں پڑھی۔
القرآن : سَواءٌ عَلَيهِم أَستَغفَرتَ لَهُم أَم لَم تَستَغفِر لَهُم لَن يَغفِرَ اللَّهُ لَهُم ۚ إِنَّ اللَّهَ لا يَهدِى القَومَ الفٰسِقينَ {63:6}
ترجمہ : تم ان کے لئے مغفرت مانگو یا نہ مانگو ان کے حق میں برابر ہے۔ خدا ان کو ہرگز نہ بخشے گا۔ بےشک خدا نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا.
ان منافقین کے لئے معافی نہیں:
یعنی ممکن ہے آپ غایت رحمت و شفقت سے ان کے لئے بحالتِ موجودہ معافی طلب کریں۔ مگر اللہ کسی صورت سے ان کو معاف کرنیوالا نہیں، اور نہ ایسے نافرمانوں کو اس کے ہاں سے ہدایت کی توفیق ملتی ہے۔ اس طرح کی ایک آیت سورۃ "براءۃ" میں آچکی ہے۔ وہاں کے فوائد دیکھ لئے جائیں۔
ترجمہ : تم ان کے لئے مغفرت مانگو یا نہ مانگو ان کے حق میں برابر ہے۔ خدا ان کو ہرگز نہ بخشے گا۔ بےشک خدا نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا.
ان منافقین کے لئے معافی نہیں:
یعنی ممکن ہے آپ غایت رحمت و شفقت سے ان کے لئے بحالتِ موجودہ معافی طلب کریں۔ مگر اللہ کسی صورت سے ان کو معاف کرنیوالا نہیں، اور نہ ایسے نافرمانوں کو اس کے ہاں سے ہدایت کی توفیق ملتی ہے۔ اس طرح کی ایک آیت سورۃ "براءۃ" میں آچکی ہے۔ وہاں کے فوائد دیکھ لئے جائیں۔
No comments:
Post a Comment