تقدیر
مصیبت کی سختی اور بدبختی کے پانے، اور تقدیر کی برائی اور دشمنوں کے طعنے سے اللہ تبارک وتعالی کی پناہ مانگو۔--------------------------------------------------------
-صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2222
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ صادق و مصدوق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم میں سے ہر ایک کا نطفہ اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن جمع رہتا ہے پھر اسی میں جما (پھٹکی بنا ہؤا)ہوا خون اتنی مدت رہتا ہے پھر اتنی ہی مدت میں گوشت کا لوتھڑا بن جا تا ہےپھرفرشتہ بھیجا جاتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے اور اسے چار کلمات لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے اس کا رزق، عمر، عمل اور شقی یا سعید ہونا اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں بے شک تم میں سے کوئی اہل جنت کے عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس پر تقدیر کا لکھا ہوا غالب آجاتا ہے اور وہ اہل جہنم کا سا عمل کر لیتا ہے اور جہنم میں داخل ہو جاتا ہے اور تم میں سے کوئی اہل جہنم جیسے اعمال کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس پر تقدیر کا لکھا ہوا غالب آجاتا ہے اور وہ اہل جنت والا کر لیتا ہے اور جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2230
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم ایک جنازہ کے ساتھ بقیع الغرقد میں تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لا کر بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ کے اردگرد بیٹھ گئے اور آپ کے پاس ایک چھڑی تھی پس آپ نے سر جھکایا اور اپنی چھڑی سے زمین کو کریدنا شروع کردیا پھر فرمایا تم میں سے کوئی جان(نفس) ایسا نہیں جس کا مکان جنت یا دوزخ میں اللہ نے نہ لکھ دیا ہو اور شقاوت وسعادت بھی لکھ دی جاتی ہے
ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا ہم اپنی تقدیر پر ٹھہرے نہ رہیں اور عمل چھوڑ دیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اہل سعادت میں سے ہوگا وہ اہل سعادت کے عمل ہی کی طرف ہو جائے گا اور جو اہل شقاوت میں سے ہوگا وہ اہل شقاوت ہی کے عمل کی طرف جائے گا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم عمل کرو ہر چیز آسان کر دی گئی ہے بہر حال اہل سعادت کے لئے اہل سعادت کے سے اعمال کرنا آسان کر دیا ہے
پھر آپ نے فرمایا ( مَنْ أَعْطَی وَاتَّقَی وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَی)
تلاوت فرمائی جس نے صدقہ کیا اور تقوی اختیار کیا اور نیکی کی تصدیق کی تو ہم اس کے لئے نیکیوں کو آسان کر دیں گے اور بخل کیا اور لا پرواہی کی اور نیکی کو جھٹلایا تو ہم اس کے لئے برائیوں کو آسان کردیں گے۔
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2232
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن بیٹھے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین کرید رہے تھے آپ نے اپنا سر مبارک اٹھا کر فرمایا تم میں سے ہر ایک کا مقام جنت یا دوزخ میں معلوم ہے۔ صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول تو پھر ہم عمل کیوں کریں کیا ہم بھروسہ نہ کریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ عمل کرو ہر آدمی کے لئے انہیں کاموں کو آسان کیا جاتا ہے جس کے لئے اس کی پیدائش کی گئی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (فَأَمَّا مَنْ أَعْطَی وَاتَّقَی وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَی) تک تلاوت کی۔
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2234
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آکر عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ ہمارے لئے ہمارے دین کو واضح کریں۔ گویا کہ ہمیں ابھی پیدا کیا گیا ہے آج ہمارا عمل کس چیز کے مطابق ہے کیا ان سے متعلق ہے جنہیں لکھ کر قلم خشک ہو چکے ہیں اور تقدیر جاری ہو چکی ہے یا اس چیز سے متعلق ہیں جو ہمارے سامنے آتی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ ان سے متعلق ہیں جنہیں لکھ کر قلم خشک ہو چکے ہیں اور تقدیر جاری ہو چکی ہے سراقہ نے عرض کیا پھر ہم عمل کیوں کریں؟ زہیر نے کہا پھر ابوالزبیر نے کوئی کلمہ ادا کیا لیکن میں اسے سمجھ نہ سکا میں نے پوچھا آپ نے کیا فرمایا؟ تو انہوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمل کئے جاؤ ہر ایک کے لئے اس کا عمل آسان کردیا گیا ہے۔
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2236
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول کیا اہل جنت اہل جہنم معلوم ہو چکے ہیں تو آپ نے فرمایا ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا پھر عمل کرنے والے عمل کس لئے کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر آدمی جس عمل کے لئے پیدا کیا گیا اس کے لئے وہ عمل آسان کردیا گیا ہے۔
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2238
حضرت ابوالاسود دیلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے عمران بن حصین نے کہا کیا تو جانتا ہے کہ آج لوگ عمل کیوں کرتے ہیں اور اس میں مشقت کیوں برداشت کرتے ہیں کیا یہ کوئی ایسی چیز ہے جس کا فیصلہ ہوچکا ہے اور تقدیر الہی اس پر جاری ہو چکی ہے یا وہ عمل ان کے سامنے آتے ہیں جنہیں ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت نے دلائل ثابتہ سے واضح کردیا ہے تو میں نے کہا نہیں بلکہ ان کا عمل ان چیزوں سے متعلق ہے جن کا حکم ہو چکا ہے اور تقدیر ان میں جاری ہو چکی ہے تو عمران نے کہا کیا یہ ظلم نہیں ہے راوی کہتے ہیں کہ اس سے میں سخت گھبرا گیا اور میں نے کہا ہر چیز اللہ کی مخلوق اور اس کی ملکیت ہے پس اس سے اس کے فعل کی باز پرس نہیں کی جاسکتی اور لوگوں سے تو پوچھا جائے گا تو انہوں نے مجھے کہا اللہ تجھ پر رحم فرمائے میں نے آپ سے یہ سوال صرف آپ کی عقل کو جانچنے کے لئے ہی کیا تھا (ایک مرتبہ )قبیلہ مزنیہ کے دو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ لوگ آج عمل کس بات پر کرتے ہیں اور کس وجہ سے اس میں مشقت برادشت کرتے ہیں کیا یہ کوئی ایسی چیز ہے جس کے بارے میں حکم صادر ہو چکا ہے اور اس میں تقدیر جاری ہو چکی ہے یا ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو احکام لے کرئے ہیں اور تبلیغ کی حجت ان پر قائم ہو چکی ہے اس کے مطابق عمل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ ان کا عمل اس چیز کے مطابق ہے جس کا فیصلہ ہو چکا ہے اور تقدیر اس میں جاری ہو چکی ہے اور اس کی تصدیق اللہ کی کتاب میں (وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا) موجود ہے اور قسم ہے انسان کی اور جس نے اس کو بنایا اور اسے اس کی بدی اور نیکی کا الہام فرمایا۔
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2241
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت آدم و موسیٰ علیہما السلام کے درمیان مکالمہ ہوا تو موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اے آدم آپ ہمارے باپ ہیں آپ نے ہمیں نامراد کیا اور ہمیں جنت سے نکلوایا۔ تو ان سے حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا تم موسیٰ ہو اللہ نے آپ کو اپنے کلام کے لئے منتخب کیا اور آپ کے لئے اپنے دست خاص سے تحریر لکھی کیا آپ مجھے ایسی بات پر ملامت کر رہے ہیں جسے میرے پیدا کرنے سے چالیس سال پہلے ہی مجھ پر مقدر فرما دیا گیا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پس آدم موسیٰ پر غالب آگئے پس آدم موسیٰ پر غالب آگئے دوسری روایت میں ہے کہ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا تیرے لئے تورات کو اپنے ہاتھ سے لکھا۔
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2247
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ نے آسمان و زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے مخلوقات کی تقدیر لکھی اور اللہ کا عرش پانی پر تھا۔
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2251
مشرکینِ قریش رسول اللہ سے تقدیر کے بارے میں جھگڑا کرنے کے لئے آئے تو یہ آیت نازل ہوئی (يَوْمَ يُسْحَبُوْنَ فِي النَّارِ عَلٰي وُجُوْهِهِمْ ذُوْقُوْا مَسَّ سَقَرَ) 54۔ القمر : 48) جس دن وہ جہنم میں اوندھے منہ گھسیٹے جائیں گے اور کہا جائے گا دوزخ کا عذاب چکھو بے شک ہم نے ہر چیز کو تقدیر کے ساتھ پیدا کیا ہے۔
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2250
ہر چیز تقدیر سے وابستہ ہے اور میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ نے فرمایا ہر چیز تقدیر سے وابستہ ہے یہاں تک کہ عجز اور قدرت یا قدرت اور عجز۔
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2254 رسول اللہ نے فرمایا ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پس اس کے والدین اسے یہودی نصرانی اور مجوسی بنا دیتے ہیں جیسے کہ جانور کے پورے اعضاء والا جانور پیدا ہوتا ہے کیا تمہیں ان میں کوئی کٹے ہوئے عضو والا جانور معلوم ہوتا ہے پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اگر تم چاہو تو آیت
(فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا) 30۔ الروم : 30) پڑھ لو یعنی اے لوگو اللہ کی بنائی ہوئی فطرت (دین اسلام ہے) کو لازم کرلو جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اللہ کی مخلوق میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1555 آپ نے فرمایا مصیبت کی سختی اور بدبختی کے پانے، اور تقدیر کی برائی اور دشمنوں کے طعنے سے اللہ تبارک وتعالی کی پناہ مانگو۔
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2249
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے تمام بنی آدم کے دل رحمن کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ایک دل کی طرح ہیںجسے چاہتا ہے اسے پھیر دیتا ہے پھر رسول اللہ نے فرمایا
(اللَّهُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوبِ صَرِّفْ قُلُوبَنَا عَلَی طَاعَتِکَ)
اے اللہ دلوں کے پھیرنے والے ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت پر پھیر دے۔
.....................................
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 11 حدیث مرفوع مکررات 2قتیبہ بن سعید، لیث، ابوقبیل، شفی بن ماتع، حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے جبکہ آپ کے پاس دو کتابیں تھیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تم لوگ جانتے ہو کہ یہ کتابیں کیا ہیں ہم نے عرض کیا نہیں مگر یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں بتائیں آپ نے دائیں ہاتھ والی کتاب کے متعلق فرمایا یہ (رَبِّ الْعَالَمِينَ) کی طرف سے ہے اور اس میں اہل جنت کے نام ہیں پھر ان کے آباء اجداد اور ان کے قبیلوں کا ذکر کرنے کے بعد آخر میں میزان ہے پھر ان میں نہ کمی ہوگی اور نہ زیادتی ہوگی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بائیں ہاتھ والی کتاب کے متعلق فرمایا کہ یہ بھی (رَبِّ الْعَالَمِينَ) کی طرف سے ہے اس میں اہل دوزخ ان کے آباء اجداد اور قبائل کے نام مذکور ہیں اور پھر آخر میں میزان کر دیا گیا ہے اس کے بعد ان میں کمی نہ ہوگی اور نہ زیادتی صحابہ کرام نے عرض کیا تو پھر عمل کا کیا فائدہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سیدھی راہ چلو میانہ روی اختیار کرو کیونکہ جنتی کا خاتمہ جنت والوں ہی کے عمل پر ہوگا اگر اس سے پہلے کیسے بھی عمل ہوں اور اہل دوزخ کا خاتمہ دوزخ والوں کے اعمال پر ہی ہوگا خواہ اس سے پہلے اس نے کسی طرح کے بھی عمل کئے ہوں پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھوں سے اشارہ کیا اور دونوں کتابوں کو پھینک دیا پھر فرمایا تمہارا رب بندوں سے فارغ ہو چکا ہے ایک فریق جنت میں اور دوسرا دوزخ میں ہے۔
..................................................
- عمل خاتمے پر موقوف ہے
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1545
، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ ہم لوگ رسول اللہ کے ساتھ خیبر میں تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ساتھیوں میں سے ایک شخص کے متعلق جو اسلام کا دعوی کرتا تھا فرمایا کہ اہل نار میں سے ہے
جب لڑائی کا وقت آیا تو اس آدمی نے بہت زیادہ ثابت قدمی دکھائی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ آپ نے جس شخص کے متعلق فرمایا تھا کہ وہ اہل نار میں سے ہے اس نے اللہ کی راہ میں بہت سخت جنگ کی ہے اور اس کی وجہ سے بہت زخمی ہوگیا ہے اب اس کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ سن لو کہ وہ اہل نار میں سے ہے بعض مسلمانوں کو اس میں شبہ ہونے لگا وہ آدمی ابھی اس حال میں تھاکہ اس نے زخم کی تکلیف محسوس کی اس نے اپنا ہاتھ ترکش کی طرف بڑھایا اور اس سے تیر کھینچ کر اپنی گردن میں چبھو دیا۔
مسلمانوں میں سے کچھ لوگ رسول اللہ کی خدمت میں دوڑ کر آئے اور ان لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ نے آپ کی بات سچ کر دکھلائی فلاں شخص نے اپنی گردن کاٹ کر خود کشی کرلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے بلال کھڑے ہو کر اعلان کردو کہ جنت میں مومن ہی داخل ہوگا اور اللہ اس دین کی فاجر شخص سے بھی مدد کرتاہے.
No comments:
Post a Comment